سنّی اتحاد کونسل سب سے بڑی پارلیمانی جماعت

PTI-MWM-Sunni.jpg

تجزیہ :- محمد عامر حسینی

پاکستان کا سیاسی بحران سواد اعظم پاکستان کا سیاسی مستقبل روشن بنا گیا. 70ء کے بعد پہلی بار سواد اعظم اہلسنت و الجماعت کی ایک سیاسی نمائندہ قوت پارلیمنٹ میں عددی اعتبار سے سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر بیٹھے گی جس کےپارلیمانی قائد سنّی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا رضوی ہوں گے

پاکستان کی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اس کی معتوب سیاسی قوتوں سے ایسی انہونی وقوع پذیر کراتی آئی ہے جن کا عام سیاسی حالات میں وقوع پذیر ہونا شاید ممکن نہ ہوپاتا. ایسی ہی ایک ان ہونی 19 فروری کی شام اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹریٹ میں دیکھنے کو ملی جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان نے اپنے حمایت یافتہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کا الحاق سنّی اتحاد کونسل کے ساتھ کرنے کا اعلان کیا.

سنی اتحاد کونسل

سنّی اتحاد کونسل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن ایک اندازے کے مطابق ایوان میں 100 یا اس سے زائد اراکین اسمبلی کے حلفیہ فارم بھرنے کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہوگی.پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں سنّی اتحاد کونسل پاکستان کی پہلی مذہبی سیاسی جماعت بن جائے گی جو قومی اسمبلی میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد رکھنے والی پارلیمانی جماعت بنے گی.

سنّی اتحاد کونسل 2009ء میں سواد اعظم پاکستان کے نام سے معروف سنّی بریلوی تنظیموں اور گروپوں کے انضمام سے تشکیل پانے والی مذہبی سیاسی جماعت تھی جس کے بانی سربراہ سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم تھے۔

سنّی اتحاد کونسل کی تشکیل کے پیچھے سنّی بریلوی برادری کے اندر پاکستان مسلم لیگ نواز کا کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت/ سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اور اس کے کئی ایک رہنماؤں پر تکفیری دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں بشمول تحریک طالبان پاکستان سے روابط اور سرپرستی کے الزامات سے پیدا ہونے والی بے چینی، غم و غضّہ تھا.

2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں رانا ثناء اللہ کو وزیرقانون اور وزیر داخلہ بنایا جس کے دوران لاہور سمیت پنجاب میں اہم سنّی صوفیاء کے مزارات پر خودکش بم دھماکے ہوئے۔ کئی اہم سنّی پیروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جن کا الزام بھی دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں پر لگایا گیا. سنّی اتحاد کونسل کے بانی سربراہ صاحبزادہ فضل کریم کی موت کے بارے میں سنّی اتحاد کونسل کے موجودہ سربراہ حامد رضا قادری رضوی کا الزام ہے کہ انہیں زہر دیا گیا اور اس کے پیچھے بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کے پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا ہاتھ تھا.

2016ء سے سنّی اتحاد کونسل کی قربت پاکستان تحریک انصاف سے شروع ہوئی اور ان کی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو 8 سال ہونے کو آرہے ہیں.سنّی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا قادری رضوی کا روایتی تعلق اہلسنت و جماعت المعروف بریلوی میں نسبتا زیادہ شدت پسند سمجھے جانے والے سیکشن سے تھا جو امام احمد رضا خاں کے نام کی وجہ سے رضوی کہلاتے ہیں.

ان کے دادا جنھیں محدث اعظم پاکستان کہا جاتا ہے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے خلیفہ مجاز تھے اور انتہائی قدامت پرست سنّی حنفی ماتریدی بریلوی عقائد کے حامل تھے جن کے مریدین دوسرے مسالک اور فرقوں کے بارے میں کافی شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے آئے۔ لیکن ان کے پوتے صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی پاکستان میں تکفیری فاشزم اور اس کے زیر اثر ابھرنے والے دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں اپنے دادا کے مریدوں سے وابستہ عمومی شدت پسندی کے برخلاف ‘صلح کلیت’ کے علمبردار بن کر ابھرے.

شیعہ سنی اتحاد کی علامت

انھوں نے پاکستان میں شیعہ سنّی مسلمانوں کے درمیان امن و آشتی کا پرچم اٹھایا اور سب سے بڑھ کر شیعہ مسلمانوں کی بڑی سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین کے اشتراک سے پاکستان میں شیعہ اور سنّی مسلمانوں کے درمیان قربت لانے میں اہم کردار ادا کیا. 8 فروری 2024ء میں پاکستان تحریک انصاف کو سنّی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کی حمایت حاصل تھی. پاکستان پیپلزپارٹی کو علامہ ساجد نقوی کی جماعت تحریک جعفریہ کی حمایت حاصل تھی

لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز نے راہ حق پارٹی پاکستان سے سیٹ ایڈیجسمنٹ اور انتخابی الائنس کیا. اس نے سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی ایک معروف تکفیری رہنماؤں کو پارٹی ٹکٹ دیے اورراہ حق پارٹی کے ٹکٹ پر سپاہ صحابہ پاکستان/ اہل سنت والجماعت دیوبندی کے مرکزی صدر و جنرل سیکرٹری کو بھی سپورٹ کیا اگرچہ ان میں سے کوئی جیت نہ سکا.

سنّی اتحاد کونسل کے سربراہ ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ حامد رضا قادری رضوی نے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاید نواز لیگ اور راہ ح‍ق پارٹی کی اسی باہمی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز اور اس کے پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا نام لیکر ان پر فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور مذہبی عسکریت پسندوں کی حمایت اور سرپرستی کرنے کا الزام بھی عائد کیا.

سواد اعظم اہلسنت بریلوی کا زوال

یاد رہے کہ سواد اعظم اہلسنت بریلوی کی پارلیمانی سیاست پاکستان میں مارشل لاء لگنے کے بعد سے اس وقت سے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی جب اس کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت جمعیت اللعمائے پاکستان مارشل لاء کی حمایت کے سوال پر دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی

ایک گروپ فوجی حکومت کے لاڈلے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ چلنے لگا- ان میں مولانا عبدالستار خان نیازی ، مولانا عبدالغفور ہزاروی، عبد المصطفی رضوی ، خاجی حنیف طیب، عثمان کینڈی شامل تھے . ان میں سے کچھ غیرجماعتی اسمبلی کے رکن بنے اور جونیجوکابینہ میں وزیر بھی بنے۔

بعد میں‌ان کی اکثریت نواز شریف کے ساتھ رہی لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نے نواز شریف کا ساتھ اس وقت چھوڑا جب خود کش بم دھماکے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی جاں بحق ہوگئے. اس دھماکے کی کڑیاں لشکر جھنگوی تک جا پہنچی اور رنا ثناء اللہ بھی اس الزام کی زد میں آئے۔

اس وقت سواد اعظم اہلسنت بریلوی کی مذہبی سیاست میں شدت پسند رجحان کی نمائندگی تحریک لبیک پاکستان کر رہی ہے. دوسری طرف کے اعتدال پسند رجحان کی سیاسی نمائندگی سنّی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کے پاس ہے اور یہ تینوں جماعتیں اپنے آپ کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت میان نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا ڈسا ہوا بتاتی ہیں.

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے