پی ٹی آئی ، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل
قبل ازیں ان سطور میں عرض کیا تھا کہ انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سب سے زیادہ شکایات خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ہیں اس لئے بہت مشکل ہوگا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان کسی سطح کی مفاہمت ہو۔
جے یو آئی کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں تو پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرے اور خیبر پختونخوا میں دھاندلی کے حوالے سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے۔
ثایناً اسد قیصر کی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ایک سیاسی دائو تھا۔ اسد قیصر پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں اس گروپ کے سرخیل ہیں جو وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے کامیاب آزاد ارکان کی مجلس وحدت مسلمین میں شمولیت کے ناقد ہیں (تحریر نویس نے ایک نرم لفظ استعمال کیا ہے) تین دن قبل کور کمیٹی میں اسد قیصر اور ان کے ہم خیالوں نے ایم ڈبلیو ایم والے انتظامات کو آڑے ہاتھوں لیا اس دوران جو عمومی بات ہوئی وہ خیبر پختونخوا کے سماجی ماحول اور لوگوں کے اہلِ تشیع بارے عام رجحان کا ذکر تھا۔
پرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے ساتھ مذاکرات اسی دن شروع ہوگئے تھے جب جماعت اسلامی سے تعاون کی بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کا اشتراک عمل صرف صوبہ خیبر پختونخوا اور اسمبلی تک محدود رہے گا یا اسے ملک گیر اشتراک عمل میں تبدیل کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھئے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب اور وفاق میں ایم ڈبلیو ایم سے اشتراک عمل کے ضمن میں اپنے بانی سربراہ کو فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے ابھی نہیں کہا۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے کراچی سے کامیاب ہونے والے آزاد ارکان سندھ اسمبلی نے اپنی ایک اتحادی جماعت، سنی اتحاد کونسل سے اشتراک عمل کا فیصلہ کیا۔ بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے ارکان سندھ اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوجائیں گے۔ چند گھنٹوں کے وقفے سے اطلاع ملی کہ کراچی سے کامیاب ہونے والے اپنے ارکان سے کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے فیصلے پر ابھی عمل نہ کریں۔ عین ممکن ہے کہ یہ پیغام اس لئے دیا گیا ہو کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین سے طے پانے والے معاملات کو ملک گیر انتظام میں تبدیل کرنے کی تجاویز پر عمل کی سوچ کارفرما ہو لیکن اتوار کو پی ٹی آئی کے اجلاس میں پی ٹی آئی پارلیمینٹرین کا کھاتہ کلوز کردیا گیا ۔
اب ضمنی بات یہ ہے کہ کیا کسی دوسری جماعت یا سنی اتحاد کونسل سے اشتراک عمل کے معاہدے پر پورے ملک میں عمل کی صورت میں ایم ڈبلیو ایم محض ایک اتحادی جماعت ہی رہے گی جیسے سنی اتحاد کونسل اب تک ہے ؟
کیا یہ نیا انتظام خیبر پختونخوا میں اندرونی ردعمل سے بچنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو تقسیم کی طرف دھکیلنے سے گریز کی سوچ کا مرہون منت ہے یا پھر یہ کہ پی ٹی آئی اور مجلس وحدت مسلمین میں اشتراک عمل پر ایک برادر اسلامی ملک کی جانب سے ظاہر کئے گئے تحفظات کا نتیجہ؟
اس میں اہم بات یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک کے جن نمائندوں نے وزارت خارجہ کے حکام کے علاوہ چند سیاسی قائدین سے ملاقات کی ان ملاقاتوں میں ایم ڈبلیو ایم کو ایران نواز پارٹی قرار دینے کے طور پر اپنے تحفظات کی بجائے کہا گیا کہ ایم ڈبلیو ایم لبنانی حزب اللہ کے قریب ہے۔
لبنانی حزب اللہ اور ایم ڈبلیو ایم میں فہمی یکسانیت، مطلب برادر اسلامی ملک آج بھی 2006ء میں منعقد ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کے مطابق سوچ رکھتا ہے۔ یاد رہے 2006ء میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس نے لبنانی حزب اللہ کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔
عرب بادشاہتوں اور ہمنوائوں کا تب یہ خیال تھا کہ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی کامیابی سے (جنوبی لبنان کو آزاد کرانا) عرب دنیا کے نوجوانوں میں حزب اللہ کے لئے ہمدردیاں بڑھانے کا سبب بن رہی ہے یہ ہمدردیاں آگے چل کر عرب بادشاہتوں او ہم خیالوں کے خلاف کسی ردعمل کو جنم دے سکتی ہیں۔
ثانیاً یہ کہ حزب اللہ کو امریکہ نے دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں شامل کررکھا ہے۔ تو کیا برادر اسلامی ملک نے ایک طرح سے یہ کہنے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ حزب اللہ سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والی تنظیم کو ہم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں جس میں حزب اللہ کو رکھا گیا ہے؟
بہرطور بنیادی بات یہی ہے کہ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے بانی سربراہ عمران خان کے فیصلے کے مطابق خیبر پختونخوا، وفاق اور پنجاب ، اور سندھ میں الگ الگ انتظام پر ہی عمل کرتی ہے یا کسی دوسرے اتحادی سے اشتراک کا دائرہ بڑھالیا جاتا ہے۔
صورتحال ایک آدھ دن میں یا عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک بہت واضح ہوچکی ہو۔ فی الوقت تو یہ ہے کہ ہمہ وقت مسلمانی کے پھریرے لہرانے والے بعض تجزیہ نگار اور صحافی پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے اشتراک عمل کے فیصلے پر چیں بچیں نہیں بلکہ دکھی بھی ہیں۔ یہ بددیانت تجزیہ نگار جماعت اسلامی سے جمعیت اہلحدیث تک کی مختلف الخیال مسلکی سیاسی جماعتوں کو تو مذہبی سیاسی جماعتیں تسلیم کرتے ہیں لیکن جونہی شیعہ مسلک کی کسی سیاسی جماعت کاذکر آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ د وسرے مسالک کی سیاسی جماعتوں کی طرح ایم ڈبلیو ایم یا تحریک جعفریہ جو اب اسلامی تحریک کہلاتی ہے کو سیاست کرنے یا ان سے سیاسی تعاون و ایسے اشتراک عمل میں کیا مسئلہ ہے جس کا اعلان عمران خان نے کیا؟
ہمارے وہ صحافی اور تجزیہ نگار جو جماعت اسلامی کو غیرمسلکی جماعت قرار دیتے نہیں تھکتے
جماعت اسلامی کی جہاد سازی اور لیاقت بلوچ کے ایک کالعدم مسلکی جماعت کی لاہور میں منعقد ہونے والی سالانہ تکفیری کانفرنس میں دواڑھائی عشروں سے مسلسل خطاب کو کیا نام دیں گے جہاں ایک بڑے مسلم مکتب فکر کی تکفیر کے نعرے ہمیشہ لگتے ہیں؟
خیر چھوڑیئے جماعت اسلامی اس کی فکری اٹھان مخصوص عقائد وغیرہ ہمارا موضوع نہیں۔ یہاں جتنی بھی جماعتیں ملک میں فرقہ واریت اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے تشدد کی مذمت کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔ ان سب مسلکی جماعتوں کا ہر دو کاموں میں بڑا حصہ ہے۔
ہماری دانست میں پنجاب اور وفاق میں حکومت سازی سمیت دیگر ترجیحات کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ اشتراک عمل کا عمران خان کا فیصلہ درست ہے۔ یہ فیصلہ قائم رہتا ہے یا اندرونی دبائو اور ایک برادر اسلامی ملک کی حالیہ لابنگ کا اثر قبول کرلیتا ہے اسے بعد میں دیکھیں گے ابھی یہ کہ بہت ساری خرابیوں کے باوجود پنجاب اور سندھ کی سماجی زندگی میں سیکولر ازم سے غذا پاتی برداشت موجود ہے۔
یہاں بین المسالک رشتہ داریاں نسل در نسل چلتی آرہی ہیں اس کے مقابلہ میں خیبر پختونخوا کا سماجی رویہ یکسر مختلف رہا اور ہے۔
ایک ایسے ملک اور سماج میں جہاں محبتوں کے پھولوں سے زیادہ تعصبات فروخت ہوتے ہوں عمران خان کا اقدام درست تھااور ہے۔
اس فیصلے میں کیڑے نکالنے والا رویہ درست نہیں نہ ہی ایک کالعدم تنظیم کے مولویوں کا یہ فتویٰ درست ہے کہ تحریک انصاف کے جو کامیاب آزاد امیدوار ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہوں گے ان کے نکاح ٹوٹ جائیں گے۔ اس فتوے کا حصہ ایک اور جملہ بھی ہے وہ یہاں لکھنے سے صحافتی اقدار مانع ہیں۔
یاد کرنے والی بات یہ ہے کہ اسی طرح کا ایک فتویٰ 1970ء کے انتخابات سے قبل 27مولویوں نے مشترکہ طور پر دیا تھا ان دنوں آج جیسی بے لگام فرقہ واریت نہیں تھی پھر بھی فتوے میں کہا گیا تھا پپلزپارٹی کو ووٹ دینے والوں کے نکاح ٹوٹ جائیں گے۔ اس ’’زیرِناف‘‘ سوچ اور اسے پروان چڑھانے والوں نے اسلام اور پاکستان کی جو ’’خدمت‘‘ کی وہ ہم سبھی کے سامنے ہے۔
اس سارے معاملے کے حوالے سے ایک دو دن میں صورتحال مکمل طور پر واضح ہوجائے گی تب مزید معروضات عرض کروں گا۔