نواز شریف پس منظر میں رہ کر کیا کردار ادا کر سکیں گے؟
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمی کے عہدے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور پنجاب میں وزیر اعلی کے لیے صاحبزادی مریم نواز کو نامزد کیا ہے۔ان کے اس فیصلے سے ن لیگ میں اور ملکی سیاسی منظر نامے پر بحث ومباحثے جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر ن لیگ کے حامیوں نے اس فیصلہ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایکس (ٹویٹر) پر ’پاکستان کو نواز دو‘ کا ٹرینڈ بھی چلایا جا رہا ہے۔
اگرچہ یہ باتیں پہلے ہی زیر گردش تھیں کہ ن لیگ کو سادہ اکثریت نہ ملنے کی صورت میں نواز شریف وزیر اعظم کا عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ آٹھ فروری کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد نواز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں بھی یہی کہا تھا کہ ’ملکی مسائل اسی وقت حل کیے جا سکیں گے جب ان کی جماعت کو سادہ اکثریت ملے گی۔‘تجزیہ کاروں کے مطابق بھی نواز شریف کا وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ اسی لیے سامنے آیا کہ ان کی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے بھائی کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ لہذا وہ پیچھے بیٹھ کر وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی نگرانی کریں گے۔
مریم نواز نے ایکس پر پیغام میں کہا کہ ’وزارت عظمی کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں۔ اگلے پانچ سال وہ نہ صرف بھر پور سیاست کریں گے بلکہ وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے۔ترجمان مسلم لیگ ن پنجاب عظمی بخاری کے مطابق ’میاں نواز شریف کنگ میکر ہیں۔ وہ جس پر ہاتھ رکھ دیں وہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی ہوتا ہے۔ نامزد وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب انہیں کی رہنمائی میں کام کریں گے۔
نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے کیوں پیچھے ہٹنا پڑا؟
مریم نواز کے مطابق ’نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں عوام نے واضح اکثریت دی تھی اور یہ بات وہ انتخابی تقاریر میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں انہیں نواز شریف کے اصولی موقف کا پتہ ہے۔ شہباز شریف اور میں ان کے سپاہی ہیں ان کی سربراہی میں کام کریں گے۔‘
تجزیہ کار حسن عسکری نے بصیر نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابی مہم کے دوران ن لیگ کے وزارت عظمٰی کے امیدوار نواز شریف ہی تھے۔ لیکن جب عوام نے انہیں اتنی نشستیں نہیں دیں کہ وہ سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکیں تو وہ خود پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی اپنے بھائی کو وزیر اعظم جب کہ بیٹی کو وزیر اعلی پنجاب نامزد کر دیا۔ان دونوں کے ہوتے ہوئے پارٹی بھی اقتدار میں رہے گی اور نواز شریف بھی اپنی نگرانی سے انہیں کامیاب کرانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جس طرح الطاف حسین اقتدار سے باہر رہ کر پارٹی چلاتے رہے ہیں اسی طرح یہ (نواز شریف) بھی چلاتے رہیں گے۔حسن عسکری کے بقول، ’پی ڈی ایم میں رہ کر شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم اس لیے نامزد کیا گیا کہ وہ سیاسی طور پر بھی بہتر رویہ رکھتے ہیں اور سٹیبشلمنٹ کے لیے بھی پسندیدہ ہیں۔ اس لیے ایسی صورت حال میں ان کا انتخاب کیا گیا۔ وہ پہلے بھی دوسری سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ مل کر حکومت چلا چکے ہیں
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بصیر نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک جس طرح سے معاشی و سماجی مسائل سے دو چار ہے ایسے میں نواز شریف کو وزیر اعظم بننا چاہیے تھا۔ سادہ اکثریت نہ بھی ہو لیکن ان کی جماعت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ لیڈر کو چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے اور بحرانوں پر قابو پاکر ماضی کی طرح خود کو ثابت کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے عملی اقتدار سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘
پیچھے بیٹھ کر اقتدار چلانا کتنا کامیاب ہو گا؟
سہیل وڑائچ کے بقول، ’اگرچہ شہباز شریف اور مریم نواز بھی نواز شریف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اور مشاورت سے حکومت چلائیں گے لیکن نواز شریف کو وزیر اعظم بننے کے لیے ووٹ ملا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ شہباز شریف اور مریم نواز ان کے ووٹرز کو کس طرح مطمعن کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز پہلی بار وزیر اعلی پنجاب بن رہی ہیں اس سے پہلے ان کا حکومت چلانے کا تجربہ نہیں لہذا صوبے کا نظام بہتر انداز میں چلانا اور مسائل حل کرنا ان کے لیے چیلنج ضرور ہو گا۔ اسی طرح شہباز شریف کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ نواز شریف کے ووٹ بینک کو ان کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔‘
حسن عسکری کے بقول، ’نواز شریف کو جو مینڈیٹ ملا اس کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم اپنے بھائی کو وزیر اعلی پنجاب اپنی بیٹی کو نامزد کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مستقبل میں پارٹی کو اقتدار میں رکھنے کا فارمولہ بنالیا ہے۔ان کے خیال میں ’نواز شریف کو چاہیے کہ جس طرح ان بڑے عہدوں پر نئے امیدوار نامزد کیے ہیں کابینہ میں بھی اہل اور نئے لوگ شامل کریں۔ اگر انہوں نے دوبارہ اسحاق ڈار کو ہی وزیر خزانہ بنایا تو وہ معیشت کو بہتر نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ پہلے بھی ان کی وجہ سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حالات پہلے سے بھی خراب ہیں ایسے میں شہباز شریف کو اپنی مرضی کی کابینہ بنانے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔نواز شریف کے وزیر اعظم نہ بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ موجودہ مینڈیٹ میں بھی وفاق اور پنجاب کی حکومت انہیں کے پاس ہے اور دونوں نامزد عہدیدار بھی ان کے گھر کے ہی ہیں۔‘
عظمی بخاری نے کہا کہ ’نواز شریف نے ہمیشہ عہدوں پر نامزد لوگوں کو کام کرنے کا آزادی سے موقع دیا ہے۔ اس بار بھی شہباز شریف یا مریم کو کام کرنے کی پوری آزادی ہو گی۔ تاہم جہاں میاں صاحب کی رہنمائی درکار ہو گی وہ ضرور لیں گے اور لینا بھی چاہیے۔جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے تو ایک بار حکومتوں کی تشکیل پا جائے پھر دیکھیں گے کہ پارٹی کو کس طرح چلایا جائے اور اس میں مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے۔سہیل وڑائچ کے بقول، ’لیڈر مشکل وقت میں پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ لیڈ کرتے ہیں۔