جماعت اسلامی کے نئے امیر کے لیے چیلنجز کیا ہوں گے؟
آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے الیکشنز میں شکست کی ذمہ داری تو قبول کی لیکن اس فیصلے سے کیا جماعت کی انتخابی سیاست میں کوئی تبدیلی آئے گی اس کا فیصلہ تو مرکزی شوری ہی کرے گی۔
جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف نے بتایا کہ ’سراج الحق نے ناکامی کو قبول کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ کارکنان نے بہت محنت سے کام کیا لیکن میں سمجھتا ہوں چوں کہ میں امیر جماعت ہوں اس لیے مجھے اس ناکامی کو اپنے سر لینا چاہیے۔ترجمان جماعت اسلامی قیصر شریف کا کہنا تھا کہ جماعت کے فیصلے صرف امیر جماعت نہیں کرتا بلکہ وہ فیصلے مرکزی شوریٰ کے ہوتے ہیں۔ ’شوریٰ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ شوریٰ ان کا استعفیٰ نا منظور کر دے۔ ویسے بھی سراج الحق کا بطور امیر وقت چند مہینوں میں ختم ہونے والا ہے اور اگلے امیر کے لیے بھی ان کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ یہ اخلاقی جرات کا کام ہے کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔‘
قیصر شریف نے بتایا کہ 17 فروری کو اسی صورت حال پر غور کرنے کے لیے سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے شوریٰ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ صدر انتخابی کمیشن جماعت اسلامی راشد نسیم نے اراکین جماعت کی رہنمائی کے لیے تین ناموں کا اعلان کیا ہے جن میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمٰن شامل ہیں۔سراج الحق جماعت اسلامی کے دو بار امیر رہ چکے ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی صرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تین تین سیٹیں ہی جیت سکی۔
نئے امیر کا انتخاب کا عمل 31 مارچ 2024 تک مکمل کیا جائے گا-امیر جماعت کے انتخاب کے تمام مراحل 31 مارچ 2024 تک مکمل کیے جائیں گے جبکہ اپریل میں صدر الیکشن کمیشن راشد نسیم نتائج کا اعلان کریں گے۔جماعت اسلامی نے انفرادی طور پر کبھی کوئی حکومت سازی نہیں کی لیکن چند بار وہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
اسی حوالے سے تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر جماعت اسلامی کے دو ماڈل تھےایک تھا اتحادی سیاست اسلامی جمہوری اتحاد اور دوسرا تھا متحدہ مجلس عمل جو کہ دینی جماعتوں کا اتحاد تھا۔سلمان عابد کے بقول تیسرا ماڈل یہ تھا کہ سابق امیر منور حسن کے دور میں یہ طے ہو گیا کہ جماعت اسلامی اپنی شناخت کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لے گی۔
’اگر گذشتہ دو تین عام انتخابات کو دیکھیں تو جماعت اسلامی اتحادی سیاست کا حصۃ نہیں بنی رہی وہ آزاد انتخاب لڑنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کو کوئی سیاسی جگیہ نہیں مل رہی ملک کی مرکزی سیاست میں۔سلمان عابد کے مطابق خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کا ایک اثر و رسوخ ہوتا تھا لیکن اب جماعت کی مقبولیت میں وہاں واضح کمی آئی ہے جبکہ کراچی جو جماعت اسلامی کی سیاست کا گڑ ہوتا تھا وہاں بھی جماعت کمزور ہوئی ہے اور ’یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر جماعت اسلامی کے اندر یہ تذبذب موجود ہے کہ ان کی جگہ انتخابی سیاست میں نہیں بن رہی۔‘انہوں نے بتایا کہ سیاسی فیصلے شوریٰ کرتی ہے اور جب شوریٰ فیصلہ کرتی ہے تو امیر جماعت اس فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔
نئے امیر کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا؟
جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف کا کہنا ہے کہ ’ہماری پارٹی نہ تو کسی فرد کی ہے نہ کسی خاندان کی پارٹی ہے ہماری جماعت تو نظریے کے ارد گرد گھومتی ہے اس میں نہ تو فوری طور پر چیلنجز ختم ہو جاتے ہیں نہ فوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں۔‘
تجزیہ کارسلمان عابد کے خیال میں پہلا چیلنج یہی ہے کہ انتخابی سیاست میں جماعت کو کیسے فعال بنایا جا سکے اور دوسرا انہوں نے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر انہوں نے جماعت کی بحالی کی طرف جانا ہے تو کیا انہیں اپنی علیحدہ شناخت کی بنیاد پر انتخاب لڑنا ہے یا نہیں مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانا ہے۔تیسرا چینج ان کا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اندر وہ جدت کیسے پیدا کی جائے جو ووٹر کواپنی طرف متوجہ کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی ایک طاقت یہ تھی کہ ماضی میں ان کے پاس جمعیت طلبہ ہوتی تھی اور وہاں سے نوجوان طلبہ اس جماعت میں بہت شامل ہوتے تھے لیکن اب جب سے طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی ہے اس لیے جمعیت بھی اس طرح فعال نہیں ہے۔سلمان عابد کے بقول دوسرا چیلنج یہ بھی ہے کہ جماعت کو اپنی پالیسیوں کو بین الاقوامی دنیا، مقامی و قومی سیاست سے جوڑنا ہے ’میرےخیال میں جماعت اسلامی کی سیاسی بحالی ہی ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔‘
تجزیہ کار حسن عسکری کے خیال میں جماعت اسلامی کے نئے امیر کے لہے سب سے بڑا چیلنج پارٹی کو عوامی سطح پر مقبول کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ’نظریاتی جماعتوں کا یہ ہی مسئلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کیڈر پارٹی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اس کا رکن نہیں بن سکتا لہٰذا جماعت اسلامی کا موازنہ آپ پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن سے نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ سب عام آدمی کی پارٹیاں ہیں۔ جماعت اسلامی اس کے برعکس ہے اس لیے اس کے لیے کارکردگی دکھانا کافی مشکل ہوتا ہے دوسری جماعتوں کی نسبت۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی ایک پریشر گروپ کے طور پر تو بہت متحرک جماعت ہے لیکن سیاسی طور پر یہ کمزور جماعت ہے ہاں ایک اخلاقی قوت کے طور پر یہ جماعت قائم رہے گی۔‘