بارہ الیکشن، ایک کہانی: حامد میر کا خصوصی تجزیہ

hamid-mir-AFP-file-360.jpg

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بارہ دفعہ عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ ان بارہ انتخابات میں ایک ہی کہانی ہے اور اس کہانی کا نام دھاندلی ہے۔ پاکستان 1947 میں معرضِ وجود میں آیا اور پہلے عام انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں کل تین سو نشستیں تھیں۔ عوامی لیگ نے 160 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 80 نشستیں جیتیں لیکن صدرِ پاکستان جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے انھیں گرفتار کر لیا اور فوجی آپریشن شروع کر دیا۔
اس آپریشن نے پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا اور یہ خانہ جنگی پاک بھارت جنگ میں بدل گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور اس ٹوٹے ہوئے پاکستان میں دوسری نمبر پر آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ کاحلف اٹھانے سے پہلے صدرِ پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بننا پڑا کیونکہ مارشل لا کا خاتمہ صرف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کر سکتا تھا
سنہ 1970 کے الیکشن کی اہم بات یہ تھی کہ جنرل یحیٰ خان نے میجر جنرل غلام عمر کے ذریعےعوامی لیگ کے خلاف دیگر جماعتوں میں بھاری رقوم تقسیم کیں جن کا ذکر آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ برگیڈیر اے آر صدیقی کی کتاب میں موجود ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی لیگ کا راستہ نہ روکا جا سکا کیونکہ شیخ مجیب الرحمان قید کاٹنے کے باعث مشرقی پاکستان میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔ ان پر پاکستان سے غداری کے الزام میں اگرتلہ سازش کیس قائم کیا گیا لیکن عدالت میں ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا جس کے باعث انھیں رہا کرنا پڑا اور وہ بنگالیوں کے محبوب لیڈر بن گئے۔
پاکستان کے پہلے عام انتخابات کی کہانی آخری انتخابات سے بڑی مماثلت رکھتی ہے جو 2024 میں منعقد ہوئے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمان کو اگرتلہ سازش کیس نے مظلوم بنایا اور تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو سائفر کیس نے مظلوم بنایا۔ رہی سہی کسر عدت کیس میں ایک سول جج کے فیصلے نے پوری کر دی اور عمران خان کے ناقدین بھی ان کی حمایت کرنے لگے۔ سنہ 1970 کے انتخابات میں ’اکثریت حاصل کرنے والی‘ جماعت کو حکومت نہیں ملی تھی اور 2024 میں بھی ’اکثریت حاصل کرنے والی‘ جماعت کو حکومت نہیں مل رہی۔
انتخابی نتائج کے مطابق تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اکثریت حاصل کی لیکن دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کی تیاری میں ہے۔ تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے انکار کر دیا ہے۔تحریکِ انصاف کا دعوٰی ہے کہ انتخابات میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور وہ اپنی چھینی ہوئی نشستیں واپس لینے کی کوشش کریں گے۔ قومی اسمبلی میں کسی کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے اور اس صورتِ حال نے مسلم لیگ (ن) کو مجبور کر دیا ہے کہ نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو وزارتِ عظمٰی کا امیدوار بنایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ریاستی اداروں کی بھر پور مدد اور سرپرستی حاصل تھی لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیوں حاصل نہ کر سکی؟ انتخابات سے دو دن قبل مسلم لیگ (ن) نے تمام قومی اخبارات کے فرنٹ پیجز پر وزیرِاعظم نواز شریف کے اشتہار کو ہیڈ لائن بنا کر شائع کیا لیکن نواز شریف وزیرِاعظم بنتے کیوں نظر نہیں آتے؟ کچھ سیاسی تجزیہ نگار سات فروری کی رات تک مسلم لیگ (ن) کو ایک سو گیارہ نشستیں دلوائے بیٹھے تھے اور اپنے انتہائی موقر و موثر ذرائع کے حوالے سے بڑی رعونت سے دعوٰی کر رہے تھے کہ اگلا وزیرِاعظم نواز شریف ہوگا۔ یہ سب تجزیے کیوں غلط ثابت ہوئے؟ کیا سیاست و صحافت کے اہم ستارے زمینی حقائق کی بجائے اپنے موقر و موثر ذرائع کی خواہشات کو سامنے رکھ کر بیانات دے رہے تھے؟
کوئی مانے یہ نہ مانے لیا آٹھ فروری 2024 کو ہمیں پاکستان کے بڑے شہروں میں عمران خان کے حق میں ایک عوامی لہر نظر آئی۔ آٹھ فروری کو میں کراچی میں تھا۔ دوپہر کے وقت لیاری کے مختلف پولنگ سٹیشنوں کے باہر مجھے کئی نوجوانوں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ لیاری سے تحریکِ انصاف کا امیدوار نہیں جیتے گا لیکن وہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کو ووٹ ڈال کر آئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ تحریکِ انصاف کو ووٹ کیوں دے کر آئے ہو؟ ایک نوجوان نے کہا کہ عمران خان بہادری سے جیل کاٹ رہا ہے لیکن نواز شریف جب بھی جیل جاتا ہے تو ڈیل کر کے پاکستان سے بھاگ جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ پاکستان بھر میں تحریکِ انصاف کے امیدوار مختلف انتخابی نشانوں پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے لیکن اس کے باوجود یہ آزاد امیدوار شیر اور تیر پر سبقت لے گئے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے کی بجائے میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی پر اتر آئی ہے اور یہ بھول رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس محاذ آرائی کا نئی حکومت کو بہت نقصان ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اپریل 2022 سے اگست 2023 تک شہباز شریف کے ڈیڑھ سالہ دور ِ اقتدار میں پاکستانی میڈیا غیر اعلانیہ سینسر شپ کا شکار تھا۔ ٹی وی چینلز پر عمران خان کی تصاویر اور بیانات بند کر دیے گئے جس کا عمران خان کو بہت فائدہ ہوا۔ اگست 2023 میں جو نگران حکومت قائم ہوئی اس کا وزیرِاعظم ایک ایسا شخص بنایا گیا جو زندگی میں ہر انتخاب ہار گیا تھا لیکن صحافیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے خود کو فاتح سمجھتا تھا۔
جب نواز شریف وطن واپس آئے تو ایرپورٹ پر پولیس افسران انھیں سلیوٹ مار رہے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ نواز شریف نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ چھوڑ کر خلائی مخلوق کی غلامی اختیار کر لی ہے۔ مسلم لیگ نون کو سب سے زیادہ نقصان استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد سے ہوا۔ ایک طرف تحریک انصاف والوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جا رہا تھا دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے گلے میں لوٹوں کا ہار ڈال دیا گیا ۔ طاقتور لوگوں نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے۔
عمران خان کو جیل میں بند کر دیا اور نواز شریف کو لوٹوں کے جھرمٹ میں غائب کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم بہت تاخیر سے شروع کی اور نواز شریف نے اپنی بدن بولی سے یہ تاثر دیا کہ انھیں وزیرِاعظم بننے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی بات تو پہلے ہو چکی ہے۔ بہتر ہوتا کہ 9 فروری کو نواز شریف وکٹری سپیچ کرنے کی بجائے اس جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے جس کے پاس اکثریت ہے لیکن انھوں نے اپنی اکثریت کا دعوٰی کر دیا۔ اس وکٹری سپیچ کا مسلم لیگ (ن) کو مزید نقصان ہوا اور ایک بنگلہ دیشی صحافی نے یہ لکھا کہ اب پاکستانیوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ 1971 میں بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
میری ناقص رائے میں 1971 میں اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرنا بہت بڑی غلطی نہیں بلکہ ظلم تھا لیکن عوامی لیگ اور تحریکِ انصاف میں بہت فرق ہے۔ عوامی لیگ صرف پاکستان کے ایک صوبے میں مقبول تھی جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ تحریکِ انصاف موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں میں مقبول ہے۔ ہم 2024 کے انتخابات میں 1970 کے انتخابات کا ٹرینڈ تو تلاش کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کو آج کا شیخ مجیب الرحمن قرار نہیں دے سکتے۔ شیخ مجیب الرحمن کسی بھی آرمی چیف کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیرِاعظم نہیں بنا تھا جبکہ عمران خان 2018 میں ایک آرمی چیف کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیرِاعظم بن گئے تھے۔
شیخ مجیب الرحمان نے مارچ 1971 میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو کے علاوہ مسلم لیگی رہنما ممتاز دولتانہ کے ساتھ ڈائیلاگ کیا تھا۔ شیخ مجیب نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ڈائیلاگ کیا لیکن عمران خان فی الحال کسی بڑی جماعت کے ساتھ ڈائیلاگ پر راضی نہیں۔ اگر وہ انتخابات سے پہلے چند چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا لیتے تو انتخابی نشان کا مسئلہ حل کر سکتے تھے لیکن انھوں نے سولو فلائٹ کو ترجیح دی۔
تمام تر مشکلات کے باوجود اس سولو فلائٹ کے ذریعے انھوں نے اپنے پرانے حریف نواز شریف کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے نئی حکومت میں شامل ہونے سے معذرت کر لی ہے لیکن حکومت کی حمایت کرے گی تاکہ سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہو۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ پاور شیئرنگ کے ذریعے مزید بدنامی سے پڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
اب نواز شریف کی بجائے شہباز شریف وزیرِاعظم بنتے ہیں تو انھیں قومی اسمبلی میں ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔ اس اپوزیشن کو ’ساتھ ‘ لے کر چلنا ہو گا بصورتِ دیگر انتقام کا راستہ پاکستان کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کر سکتا ہے جس کی ذمہ داری عمران خان پر نہیں بلکہ شہباز شریف پر عائد ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے