عام انتخابات اور اقلیتی برادری

download-3.jpg

8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک میں رہنے والی اقلیتی برادری نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہاں ہےتاکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی اسمبلی میں اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان میں جہاں مخصوص نشستوں پراقلیتی اراکین منتخب ہوتے ہیں وہیں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جہاں سے یہ براہ راست انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس کی تفصیل زیر ن8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک میں رہنے والی اقلیتی برادری نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہاں ہےتاکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی اسمبلی میں اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان میں جہاں مخصوص نشستوں پراقلیتی اراکین منتخب ہوتے ہیں وہیں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جہاں سے یہ براہ راست انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس کی تفصیل زیر نظر ہے

ڈاکٹر مہیش ملانی

این اے 215 سے انتخاب لڑنے والےڈاکٹر مہیش ملانی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے ۔ یہ ملک کی نامور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی بنیادی تعلیم سندھ سے حاصل کی اور بعد ازاں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنےکے ساتھ ہی ساتھ ملکی سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ تھرپارکر سے پہلی مرتبہ2008 میں براہِ راست ایم این اے منتخب ہوئےاور ایک بار رکن سندھ اسمبلی بھی رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ہری رام کشوری لال

پی ایس 45 میر پور خاص سے انتخابات میں حصہ لینے والےہری رام کا تعلق پاکستان کی ہندو برادری سے ہے ۔ ان کی پیدائش پاکستان کے شہر میر پور خاص میں ہوئی ان کی بنیادی تعلیم میٹرک اور پیشے کے لحاظ سے یہ ایک زمیندار ہیں۔ سیاست میں بھی بہت سرگرم ہیں اور ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔

یہ واحد غیر مسلم ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ جنرل الیکشن میں سندھ کی صوبائی نشست سے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ ہری رام 5 مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 2012 سے2018 تک یہ سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ موجودہ الیکشنز میں یہ دوبارہ پی ایس 45 سے میدان میں اتر رہے ہیں۔یاد رہے کہ ہری رام پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر ممبر بھی ہیں۔

ڈاکٹر سویرا پرکاش

ڈاکٹر سویرا پرکاش خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقے بونیر سے پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 25 بونیرسے جنرل الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جس کا چرچہ پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ اپنے علاقے میں خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر سویرا پرکاش ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ ان کے والد اوم پرکاش بھی ڈاکٹر ہیں جو خود بھی سوشل ورکر ہیں اور پچھلے 35 سال سے علاقے کی خدمت کر رہے ہیں۔ اوم پرکاش میڈیکل سنٹر کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہے ہیں۔

چوہدری سخاوت مسیح

پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے مقابلے میں این اے 76نارووال سے اقلیتی امیدوار چوہدری سخاوت مسیح کو نامزد کیا ہے۔ 15 سال سے یہ اقلیتی ونگ کے صدر بھی ہیں۔ نارووال کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے امیدوار ہیں۔

یعقوب نعیم گل

فیصل آباد کے حلقےپی پی 115 سے پاکستان پیپلزپارٹی نے یعقوب نعیم کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں طاہر جمیل اور تحریک انصاف کے شیخ شاہد جاوید میدان میں اتریں گے۔

جماعت احمد یہ کا موقف بائیکاٹ کا اعلان

جماعت احمدیہ پاکستان کے پریس سیکشن نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے لا تعلقی کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابات مخلوط طرز پر ہو رہے ہیں اس کے باوجود عقیدے کے اختلاف کی بنا پر مذہبی تفریق کرتے ہوئے صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے ۔ ووٹرز کی رجسٹریشن اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کا کام مکمل ہوچکا ہے۔

اس وقت پاکستان میں ایک ووٹر لسٹ ہے جس میں مسلمان ہندو، مسیحی، سکھ ، پارسی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والےپاکستانی شامل ہیں جبکہ صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے جس کے اوپر ’’ قادیانی مرد خواتین“ تحریر ہے۔ محض مذہب کی تفریق کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے الگ فہرست کا اجراء، احمدی پاکستانی شہریوں کو انتخابات سےالگ رکھنے اور ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی ایک ارادی کو شش ہے۔

یہ تفریق اور امتیاز بنیادی انسانی حقوق ، حضرتقائد اعظم کے فرمودات اور آئین پاکستان اور مخلوط طرز انتخاب کی روح کے سراسر خلاف ہے ۔جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے کہا ہے کہ درج بالا صور تحال کے پیش نظر جماعت احمد میں پاکستان کی عام انتخابات میں شمولیت ممکن نہیں اس لئے جماعت احمدیہ پاکستان نے عام انتخابات 2024 سے اعلان لا تعلقی کا فیصلہ کیا ہے اوراگر ان انتخابات میں کوئی فرد بطور احمدی حصہ لیتا ہے تو وہ کسی صورت احمدیوں کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی احمدی اسےاپنا نمائندہ تسلیم کر لیں گے۔

اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کس پارٹی نے کتنے امیدوار نامزد کیے؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے 10اقلیتی ارکان کیلئے مجموعی طور پر 37 امیدواروں کی حتمی لسٹ جاری کی گئی ہےجس میں مسلم لیگ ن کے 10 پیپلزپارٹی کے7 امیدوار،جے یو آئی کے 5،جماعت اسلامی کے4، ایم کیو ایم کے3، تحریک لبیک کے2 امیدوار بھی میدان میں اترے ہیں۔ دیگر جماعتوں میں استحکام پاکستان پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس،عوامی نیشنل پارٹی اوربلوچستا ن نیشنل پارٹی کا بھی ایک،ایک امیدوار اقلیتی نشستوں کی دوڑ میں شامل ہے۔

اگر عام انتخابات2018کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اور سندھ اسمبلی کی جنرل نشست پر3اقلیتی امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 222تھرپارکر سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر مہیش کمار ملانی وہ واحد اقلیتی سیاستدان تھے، جو قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں جی ڈی اے کے امیدوار ارباب ذکا اللہ تھے۔ ان کے علاوہ ہری رام کشوری لعل نے میرپور خاص کے حلقہ پی ایس 47پر ایم کیو ایم پاکستان کے مجیب الحق کو شکست دی۔ پی ایس 81پر گیانومل جامشورو اتحاد کے ملک چنگیز کو شکست د ے کر اسمبلی میں پہنچے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے