شہیدمقبول بٹ کی 40 ویں برسی، مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال
ممتاز کشمیری رہنما مقبول بٹ کو آج سے 40 سال قبل 11 فروری 1984 کو بھارت نے اپنے زیر تسلط مقبوضہ جموں کشمیر کی تہاڑ جیل میں آزادی مانگنے پر پھانسی کی سزا سناتے ہوئے تختہ دار پر چڑھا دیا تھا۔اتوار کے روز 11 فروری 2024 کو ان کی 40 ویں برسی پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی، جب کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
بھارت نے تحریک آزادی کشمیرمیں نمایاں کردار ادا کرنے پر محمد مقبول بٹ کو 1984میں آج ہی کے دن نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر جیل کے احاطے میں دفن کر دیا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور دیگر حریت پسند تنظیموں نے دے رکھی تھی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں محمد یوسف نقاش، فیاض حسین جعفری اور سید سبط شبیر قمی نے محمدمقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو ان کے یوم شہادت پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہدا کشمیریوں کے حقیقی ہیرو اور تحریک آزادی کا ایک عظیم اثاثہ ہیں۔حریت رہنمائوں نے محمد مقبول بٹ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدا ء بھارتی قبضے کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی علامت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور ان کے مشن کو ہر قیمت پر پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام شہدا کے مشن کو مزیدپختہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی غلامی سے آزادی ہی کشمیریوں کی مشکلات کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ دریں اثنا ء مقبوضہ جموں وکشمیرکے مختلف علاقوں میں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو سمیت کشمیری شہداء کی تصاویر والے پوسٹرچسپاں کیے گئے ہیں۔ پوسٹروں میں تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیاگیا ہے۔
مقبول بٹ پر انڈین جہاز اغوا کرنے کا الزام، حقیقت کیا تھی
واضح رہے کہ 1971 میں آزادی کشمیر کے ہیرو مانے جانے والے مقبول بٹ پر انڈین ایئرلائنز کے طیارہ ‘گنگا’ کو ‘ہائی جیک’ کر کے پاکستان لے آنے کے منصوبے کا الزام تھا۔اس وقت طیارہ اغوا کرنے والے اور سرینگر میں رہائش پذیر ہاشم قریشی نے بتایا تھا کہ طیارے کے اغوا میں مقبول بٹ کا کیا کردار تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ تھا اس میں مقبول بٹ کا ہی کردار تھا۔
انہوں نے خصوصی عدالت میں اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم نے کوئی سازش نہیں کی۔ ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم نے ایسا کیا تاکہ کشمیر کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز ہو۔’ بس انہوں نے دُنیا کی کشمیر کی آزادی کی جانب توجہ دلانے کے لیے خود کو تختہ دار پر چڑھا دیا۔ہاشم قریشی کا کہنا تھا کہ میں آپ کو 1970 کی کہانی سناتا ہوں۔ ہم ڈاکٹر فاروق حیدر کے کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ اچانک خبر آئی کہ اریٹیریا کے 2 افراد نے کراچی میں ایتھوپیا کے ایک جہاز پر فائرنگ کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ مقبول بٹ نے جوں یہ سنا وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
کہا جاتا ہے کہ حریت پسند کشمیری رہنما مقبول بٹ پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کا یہ شعر اکثر پڑھتے تھے،جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے، یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں۔