انتخابات کے نتائج سے مزید تقسیم کا خدشہ: ’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا‘

a32f4600-c766-11ee-b508-2db3e7b736a1.jpg

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج دیر سے سامنے آئے ہوں۔ مگر حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ضرور ہوا کہ الیکشن کے دن اور اگلی رات ملک بھر میں موبائل فون نیٹ ورکس بند رہے، اور 24 گھنٹے گزرنے پر بھی مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے۔گذشتہ دو روز کے واقعات نے بظاہر پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔اگلی حکومت کس کی ہوگی، اس معاملے پر عوام میں کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ پہلے سے ہی ریاستی اداروں پر اعتبار کم ہو رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی صارفین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے تو دوسری جانب فوج اور عدلیہ کو بھی اس افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔لیکن اس تقسیم، کنفیوژن اور عوامی غصے کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس سوال کے جواب سے پہلے ایک نظر گذشتہ چوبیس گھنٹوں پر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے عام انتخابات میں اب تک کیا ہوا؟

جمعرات کو شام پانچ بجے ووٹنگ کا عمل رُکا تو نتائج کے اعلان کا انتظار تھا۔ چھ بجے کے بعد چند پولنگ سٹیشنز سے وہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے سامنے آنا شروع ہوئے جہاں گنتی کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔ان ابتدائی نتائج نے سب کو حیران کر دیا کیونکہ توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کو برتری حاصل تھی۔ تاہم چند ہی گھنٹوں میں رزلٹ کی آمد کا سلسلہ رُک گیا۔اس موقع پر سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر بحث جاری رہی جس میں سوالات بھی تھے اور شکوک و شبہات بھی۔

عوام کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر تھیں مگر وہ بھی بے بس نظر آ رہا تھا۔ رات بارہ بجے بھی موبائل نیٹ ورکس بحال نہیں ہوئے تھے اور ووٹوں کی گنتی کے نتائج منظر عام پر نہیں آ رہے تھے۔ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں اور حامیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جیت کا اعلان کیا اور نتائج میں تاخیر کو ’دھاندلی کی کوشش‘ قرار دیا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے کیمپس میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ انھیں اس بار انتخابات میں واضح برتری کی امید تھی مگر نصف شب تک سامنے آنے والے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق خود سابق وزیر اعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کی زیر حراست یاسمین راشد سے ایک بڑے مارجن کے ساتھ پیچھے تھے۔
الیکشن کمیشن نے رات ایک موقع پر اعلان کیا کہ آدھے گھنٹے میں نتائج آنا شروع ہو جائیں گے مگر صبح تین بجے تک بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی تفصیل موجود نہیں تھی۔ یہی اعلان صبح دوبارہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نتائج دس بجے تک سامنے آ جائیں گے تاہم یہ بھی نہ ہوسکا۔دوسری طرف نگران حکومت قوم کو انتخابات کے پُرامن انعقاد پر مبارکباد دیتی نظر آئی اور وزارت داخلہ موبائل نیٹ ورکس بند رکھنے کے فیصلے کا دفاع کرتی رہی۔

اس سے قبل حکومت نے ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ انتخابات کے دن موبائل نیٹ ورکس بند نہیں کیے جائیں گے۔ تاہم ووٹنگ شروع ہونے سے صرف دس منٹ پہلے وزارت داخلہ نے ملک بھر میں دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر موبائل نیٹ ورکس بند کر دیے۔الیکشن کمیشن نے وضاحت دی کہ ان کا نتائج اکٹھا کرنے کے لیے بنایا گیا نیا نظام اس لیے کام نہیں کر سکا کیونکہ موبائل نیٹ ورکس بند ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ لیکن اسی بیان سے پہلے الیکشن کمیشن یہ اعلان بھی کر چکا تھا کہ یہ نیا سسٹم انٹرنیٹ کے بغیر بھی فعال رہے گا۔

الیکشن کمیشن اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ تنقید کی زد میں

اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بنی ہے۔ گذشتہ رات سے ہی خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اور جماعت کے حامی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں دھاندلی کے مرتکب ہوئی ہے۔

اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار شعیب شاہین نے نمائندہ البصیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ جو کسی بھی واقعے کا سو موٹو نوٹس لے سکتی ہے، انھوں نے نہ تو موبائل نیٹ ورکس بند ہونے کا نوٹس لیا، نہ کل شب ہونے والی (مبینہ) دھاندلی کی خبر لی اور نہ ہی یہ نوٹس لیا کہ نتائج میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔‘شعیب شاہین کا دعویٰ ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کل رات تک ایک بڑے مارجن سے جیت رہے تھے مگر آج صبح انہیں ہرا دیا گیا۔ وہ اس دھاندلی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ ’یہ سب انہی کا کیا دھرا ہے جو یہاں سب سے مضبوط ہیں اور کسی اور کو جتوانا چاہ رہے ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے۔‘ دھاندلی کا یہ الزام لگانے والے وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ ان کی طرح کئی دیگر آزاد امیدوار بھی یہی الزام دہرا رہے ہیں۔شعیب شاہین کی جانب سے تاحال کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے جبکہ الیکشن کمیشن کا عملہ الزامات کے جواب دینے کے بجائے فی الحال نتائج مرتب کرنے میں مصروف ہے۔

گذشتہ دو دن کے دوران پیش آنے والے ان تمام واقعات کے بعد پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ مزید گہری ہوتی نظر آ رہی ہے۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور اداروں نے اس بار بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا خیال تھا کہ اب معامالات درست ہوں گے، ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے گا۔ یہ انتخابات پر امن ہوئے، لوگ سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نکلے۔ اپنا ردعمل پرچی سے دیا جو کہ خوش آئند تھا۔ یہی جمہوریت کی کامیابی ہے۔

’مگر جب آپ اچانک نتائج روک دیتے ہیں اور نتایج بدلنے لگتے ہیں تو یہ سب دکھائی دیتا ہے۔۔۔ پنجاب کے نتائج آہستہ آہستہ رکے اور پھر صورتحال بدل گئی۔‘انھوں نے کہا کہ اس سے سوال اٹھے ہیں کہ وہ کون سی قوت ہے ’جو عوام کی رائے بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اور یہ ایک دو بار نہیں، پچھتر سال سے ہو رہا ہے۔ اعتراض اور سوال تو ہیں کیونکہ اس عمل کو مشکوک بنایا گیا ہے۔‘

واشنگٹن میں ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں اس خوف کی وجہ بہت واضح ہے کہ فوج نے انتخابی عمل میں بالکل آخری وقت میں اپنے فائدے کے لیے مداخلت کیوں کرے گی، اور یہ مفاد براہ راست پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنا ہے۔‘مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ انتخابی نتائج کے دوران ’پی ٹی آئی کی کامیابی کے ابتدائی اشارے، اور پھر اچانک نتائج کا دیر تک اعلان نہ ہونا، الیکشن کمیشن کی مکمل خاموشی، اور پھر ایسے سرکاری نتائج جن میں فوج کی ترجیحی جماعت سیاسی اتحاد بناتی نظر آرہی ہیں، یہ سب آخری لمحہ کی دھاندلی کی پیشنگوئی کرتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ پاکستان ایک ایسے نتیجے کی طرف جا رہا ہے جس سے عوام کی مرضی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ ’یہ پاکستان کی پہلے سے کمزور جمہوریت کے لیے ایک اور دھچکا ہو گا۔

کیا ان انتخابات کے بعد ملک میں استحکام آئے گا؟

فی الحال ایسا ہوتا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ عوام اور سیاسی جماعتیں اب بھی ایک تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہیں۔عاصمہ شیرازی کے مطابق استحکام آنا تو چاہیے۔ ’سب کو بیٹھنے کا فیصلہ کرنا چاہییے۔ پنجاب میں سخت مقابلہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک پارٹی جیت رہی ہے۔ لیکن اب گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب جانا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہوا تو یہ دائرے کی طرح چلتا رہے گا اور ہم یونہی گھومتے رہیں گے۔‘ان کی تجویز ہے کہ ’اب عمران خان کو بھی بات کرنی چاہیے۔۔۔ اگر لوگ نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں گے تو پھر مذاکرات اور بات چیت ہی ہو گی۔‘

لیکن مائیکل کوگلمین کے مطابق ’یہ مشکل ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ یہ انتخابات پاکستان میں استحکام لے کر آئیں گے۔ یہ قوم کو مزید تقسیم کریں گے جو پہلے ہی پولرائزیشن کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردی میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے حالات میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا بیس ہے۔ اور جماعت غصے اور افسوس کا شکار بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ووٹرز نے بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیا اور پھر ان کے انتخابات کا نتیجہ روک دیا گیا۔ ٍاور اب انھیں اپنے تلخ مخالفین کا سامنا ہے۔ پاکستان کو عوامی غصے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ شورش کا واقعی خطرہ کا سامنا کر رہا ہے۔‘

یہاں یہ سوال بھی ہے کہ ایک غیر مستحکم پاکستان کو دنیا کیسے دیکھے گی اور یہ عالمی طاقتوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور یہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو علاقائی اعتبار سے اہم ہے۔

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی بڑھی ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے میزائل حملہ اور پاکستان کی جوابی کاروائی نے ایک بار پھر ملک کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ دہشتگردی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے اور چین پاکستان کا قریبی دوست ہے۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق دیگر دنیا کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی عوام کے لیے ملک کو مستحکم بنانا ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے سرحدی علاقے پُرامن نہیں ہیں، انڈیا اور طالبان کے کنٹرول میں أفغانستان کے سرحد ہے تو دوسری جانب حال ہی میں ایران کے ساتھ بھی تلخی سامنے آئی۔ پاکستان کا ایک نیوکلیئر طاقت ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ ایک اہم نقطہ رہا ہے۔ ’ایسے میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ اور انتخابات کا عمل تو ہوتا ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ہے۔‘

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے کہ ان انتخابات کے بعد بالآخر ملک میں استحکام آئے گا۔ تاہم مائیکل کگلمین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں اس وقت جاری عالمی تنازعات کے بیچ پاکستان کا الیکشن اور سیاسی عدم استحکام ایک چھوٹی بات لگتی ہے مگر یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں بڑی تعداد میں نوجوان ہیں۔ اس ملک کی سرحدیں تنازعات کا شکار ہیں، یہاں معاشی دباؤ ہے اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے۔ تو دوسری جانب ریاست اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم ہے۔ اس انتخاباتی کرائس نے ملک کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔‘

اب تک سامنے آنے والے نتائج سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت بھی اتحادی جماعتوں سے قائم ہو گی اور کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے