نتائج سے حکومت بنانے تک کا سفر: ابھی کون سے مراحل باقی ہیں؟
پاکستان میں 12 ویں پارلیمانی انتخابات کے تمام مراحل تقریباً مکمل ہو چکے ہیں اور جلد ہی تمام نتائج بھی سامنے آجائیں گے، جو ملک میں ایک نئے وزیر اعظم کی سربراہی میں وفاقی حکومت اور صوبوں میں نئے وزرائے اعلیٰ کی زیر صدارت چار صوبائی حکومتوں کے قیام کی بنیاد بنے گے۔پارلیمانی انتخابات میں مرکزی سطح پر کامیاب ہونے والے امیدوار پانچ برس کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی (پارلیمان کا ایوان زیریں) کے اراکین بن جاتے ہیں اور ایم این ایز (ممبرز آف دا نیشنل اسمبلی) کہلاتے ہیں جب کہ صوبوں میں منتخب امیدوار برابر مدت کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے رکن قرار پاتے اور ایم پی ایز (ممبرز آف دا پروونشل اسمبلی) کہلائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں 1985 کے انتخابات کے علاوہ تمام پارلیمانی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیں اور یہی صورت حال موجودہ الیکشنز کی ہے۔جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے، جس میں امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ الاٹ کر کے انتخابات کے لیے میدان میں تارنے سے آزاد امیدواروں کی پارٹیوں کی حمایت، مخصوص نشستوں کا پُر کیا جانا، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کا انتخاب شامل ہیں۔
مخصوص نشستیں
ووٹنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی اور غیرسرکاری اور غیرحتمی نتائج مرتب کرنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پہلا کام مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتی اراکین کا تعین کرنا ہے۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں 266 جنرل نشستوں کے خلاف براہ راست منتخب ہونے والے اراکین کے علاوہ 60 خواتین اور 10 اقلیتی اراکین بھی ہوں گے، یوں نئی قومی اسمبلی کے اراکین کی مجموعی تعداد 336 ہو گی۔
تاہم صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ایک آزاد امیدوار کی موت کے باعث جمعرات کو قومی اسمبلی کی 265 نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ معطل شدہ حلقے میں انتخاب بعد میں کروایا جائے گا۔خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ایوان میں موجود سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الاٹ کی جاتی ہیں۔
آزاد ایم این ایز
پولنگ کے بعد تین روز میں آزاد منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو اپنی سیاسی وابستگیاں واضح کرنا ہوتی ہیں۔ ہر آزاد رکن انفرادی طور پر الیکشن کمیشن کو مطلع کرنے کا پابند ہے کہ قومی اسمبلی یا متعلقہ صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے دوران ان کا تعلق کس سیاسی جماعت سے رہے گا۔
نتائج کا اعلان
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹنگ ڈے کے بعد 14 روز میں الیکشنز کے حتمی اور سرکاری نتائج کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا پابند ہے۔قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے نتائج پر مشتمل الگ الگ نوٹیفیکیشنز قومی اسمبلی اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو بھیجے جاتے ہیں۔نتائج کے گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد (بعض مرتبہ پہلے بھی) قومی اسمبلی میں پہنچنے والے سیاسی جماعتوں کے اراکین، جنھیں مشترکہ طور پر متعلقہ جماعت کی پارلیمانی پارٹی کہا جاتا ہے، اپنے اپنے اجلاس منعقد کرتے ہیں، جن میں ہر پارلیمانی پارٹی اپنا پارلیمانی لیڈر اور دوسرے عہدیداروں کا تعین کرتی ہے۔
قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس
آئین پاکستان کے آرٹیکل 91 کے تحت پولنگ ڈے کے بعد 21 ویں روز (جو نتائج کے نوٹیفیکیشز جاری ہونے کا ساتواں دن بنتا ہے) نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہو گا۔
صدر مملکت 21 روز سے قبل بھی ایوان زیریں کی بیٹھک طلب کر سکتے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں جنم لینے والی اسمبلی پاکستان کی 12 ویں قومی اسمبلی ہو گی۔
نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس گذشتہ ایوان کے سپیکر کی زیر صدارت ہوتا ہے، جس میں سب سے پہلے نو منتخب اراکین حلف اٹھاتے ہیں۔سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے 10 اگست 2023 کو 2018 کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی تحلیل کی تھی اور اس ایوان زیریں کے سپیکر راجہ پرویز اشرف اب تک اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جو نئی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کریں گے۔
سپیکر، ڈپٹی سپیکر کا انتخاب
نئی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔قومی اسمبلی کے سیکریٹیریٹ کے زیر انتظام ہونے والے ان انتخابات میں مختلف گروہوں (پارٹیوں) کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ شو آف ہینڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔نئے سپیکر کے انتخاب کے بعد موجودہ سپیکر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم کا انتخاب
آئین کے آرٹیکل 91(3) کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد کوئی دوسرا کام اور بحث کیے بغیر قومی اسمبلی (اپنے اراکین) میں سے) کسی مسلمان رکن کو وزیر اعظم کے لیے منتخب کرے گی۔آرٹیکل 91(4) واضح کرتا ہے کہ نئے وزیر اعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے کل اراکین کی اکثریت کے (51 فیصد) ووٹوں سے کیا جائے گا۔نئی قومی اسمبلی پاکستان کا 33 واں وزیر اعظم منتخب کرے گی، جس کے لیے عہدے کے امیدوار کو کم از کم 169 اراکین کے حمایت کی ضرورت ہو گی۔آئین کے آرٹیکل 91 میں فراہم کی گئی وضاحت کے مطابق ’اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کرتا، تو پہلی رائے شماری میں دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اراکین اور موجود اور ووٹ دینے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے والے اراکین کے درمیان دوسرا پول کرایا جائے گا۔
وضاحت میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر دو یا دو سے زیادہ اراکین کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد جو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہیں کے درمیان مزید رائے شماری اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک موجود اور ووٹ دینے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ کر لے۔‘پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 (4) کے مطابق وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے رکن کو صدر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بلائے گے اور صدر مملکت نئے چیف ایگزیکٹیو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے صدر سے حلف اٹھائے گے۔
بحیثیت وزیر اعظم منتخب ہونے اور حلف اٹھانے کے بعد ملک کے نئے چیف ایگزیکٹیو اپنی کابینہ، جس میں وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت شامل ہوتے ہیں، تشکیل دی جاتی ہے، جس کے بعد ملک کا انتظام چلانے کے لیے وفاقی حکومت مکمل ہو جاتی ہے۔
صوبائی اسمبلیاں
صوبائی اسمبلیوں کے نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی پولنگ ڈے کے 14 روز کے اندر گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے جاری اور متعلقہ سپیکرز کو بھیجے جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی ہی کی طرحٖ نئی صوبائی اسمبلیوں کے پہلے اجلاس بھی گذشتہ اسمبلیوں کے اپنے اپنے سپیکرز کی صدارت میں منعقد کیے جاتے ہیں اور اسی طرح اراکین کی کل تعداد کی اکثریت (51 فیصد) کی حمایت سے وزرا اعلیٰ منتخب کیے جاتے ہیں۔وزرائے اعلیٰ کے انتخاب سے قبل قومی اسمبلی کی طرح ہی آزاد امیدوار، مخصوص نشستوں، اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکرز کے انتخابات سے متعلق معاملات مکمل کیے جاتے ہیں۔صوبائی وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کے بعد ہر صوبے کا چیف ایگزیکٹیو اپنی کابینہ تشکیل دیتا ہے اور یوں صوبائی حکومتیں مکمل ہوتی ہیں۔