صومالیہ میں داعش کی خطرناک سرگرمیاں
امریکہ، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور دیگر مغربی سامراجی ممالک کا تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا حامی اور مددگار ہونے میں ذرہ برابر شک و شبہ باقی نہیں بچا۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے ہمیشہ سے ان مغربی سامراجی ممالک کے مفاد کے حق میں اقدامات انجام دیے ہیں اور مغربی ایشیا خطے میں اس کی سرگرمیاں ٹھیک اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف انجام پائی ہیں اور پا رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور تکفیری دہشت گروہ داعش کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی کا ایک اور بڑا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب گذشتہ دنوں براعظم افریقہ میں اس دہشت گرد گروہ کے اقدامات انجام پائے ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے حال ہی میں افریقی ملک صومالیہ میں ایسے علاقوں پر حملہ کیا ہے جو اس سے پہلے القاعدہ کا گڑھ تصور کئے جاتے تھے۔
صومالیہ ایسا افریقی ملک ہے جو بحیرہ احمر میں آبنائے باب المندب کے اوپر واقعہ ہے اور دنیا کے نقشے میں اسے یمن کے سامنے دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ حساس حالات میں صومالیہ میں داعش کی سرگرمیاں بڑھ جانے اور اس کی جانب سے اپنے اثرورسوخ کے حامل علاقوں کو پھیلانے کا عمل انتہائی معنی خیز ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ داعش کے ان اقدامات کا مقصد اسرائیل اور امریکہ کے خلاف یمن کی جاری سرگرمیوں کو کاونٹر کرنا ہے۔ افریقی ملک صومالیہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب تک بہت اچھی رسائی رکھتا ہے اور یہ چیز خطے کے اہم ترین اسٹریٹجک امور میں سے ایک ہے۔ ٹھیک اسی وجہ سے القاعدہ نے بھی اپنی تشکیل کے ابتدائی سالوں میں ہی صومالیہ میں اپنی شاخ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
البتہ امریکی حکمران صومالیہ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھرپور انداز میں میدان میں کود کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے صومالیہ میں القاعدہ کی ذیلی شاخ تحریک الشباب کو انتہائی کمزور کر چکے ہیں۔ القاعدہ کا اثرورسوخ ختم کرنے کے بعد اب امریکی اور صیہونی حکمران اس افریقی ملک میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ موجودہ حالات میں صومالیہ جیسے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل افریقی ملک میں داعش اور القاعدہ (تحریک الشباب) کے درمیان ٹکراو تشویش ناک ہے۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا کے جس حصے میں بھی داعش وسیع سطح پر سرگرم عمل ہوئی ہے وہ حصہ امریکی اور صیہونی انٹیلی جنس ایجنسیز کی شیطانی سازشوں کا مرکز بنا ہے۔
حتی طوفان الاقصی آپریشن شروع ہونے سے پہلے سے جب بحیرہ احمر کا علاقہ بہت حساس ہو چکا تھا تو ہم صومالیہ میں القاعدہ کی سرگرمیاں شروع ہونے کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکمران بہت جلدی آگاہ ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں انہوں نے ایک بار پھر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش جیسا اپنا منحوس مہرہ میدان میں اتار دیا ہے۔ اس اقدام کا ایک مقصد سامراج مخالف مسلمان مجاہدین کو مضبوط ہونے سے روکنا بھی ہے۔ ماضی میں تحریک الشباب نے صومالیہ میں امریکہ کے خلاف بہت موثر کاروائیاں انجام دی ہیں اور اب اسے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا سامنا ہے۔ اگر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری اس حقیقت سے آگاہ ہوتے کہ الشعیبی کی سربراہی میں نجدی مکتب اور زرقاوی کے سامنے جھکنے سے القاعدہ کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا تو وہ ہر گز ان کے دھوکے میں نہ آتے۔
آج صومالیہ میں القاعدہ کے جنگجو امریکہ کے خلاف لڑنے کی بجائے ان عناصر کے خلاف جنگ کرنے اور جانی نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں جن سے ماضی میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے ان کی خباثت سے لاعلم ہونے کے باعث سازباز کی تھی۔ اگرچہ خود اسامہ بن لادن اور ابو مصعب شامی اور سیف العدل بارہا اس خبیث دھڑے (تکفیری عناصر) کے انحرافات کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات سے نالاں تھے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن نوبت یہاں تک آ پہنچے گی۔ ان گلے شکووں کو سمجھنے کیلئے القاعدہ میں موجود چار مختلف دھڑوں کو پہچاننا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے القاعدہ میں تکفیری عناصر کو گھسانے کا کام بہت ہی طے شدہ اور پیچیدہ منصوبہ بندی کے ذریعے انجام پایا تھا۔ مغربی مصنفین نے القاعدہ کے بارے میں بہت سی جھوٹی باتیں مشہور کر رکھی ہیں۔ لیکن ایسی دستاویزات بھی موجود ہیں جن کے منظرعام پر آنے کے بعد حقائق کھل کر سامنے آئیں گے