آٹھ فروری کے بعد! عاصمہ شیرازی کا کالم

images.jpg

سُرخ لکیر کے اِس پار اور اُس پار کھڑے دو اہم کردار حتمی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اب مقابلہ نہیں امتحان ہے۔ مقابلہ کچھ عرصہ قبل تھا جب زمان پارک میں بیٹھے عمران خان خود بخود یا کسی طاقتور آسرے پر خود کو ’ریڈ لائن‘ تصور کر چکے تھے اور ریاست کو چیلنج کر رہے تھے۔

نو مئی کے بعد آنے والی دس مئی کو جنرل عاصم منیر کا نام لے کر اپنا اہم ہدف بتا چکے تھے، اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا آغاز تو ہو ہی چکا تھا مگر اُس دن دانستہ یا نا دانستہ ’ریڈ لائن‘ عبور ہو چکی تھی۔اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی سیاسی جماعتوں کو دوام بخشتی ہے اور یہ محاذ آرائی کچھ نئی بھی نہیں ہے مگر یہاں سیاسی جماعت کا فرق واضح ہوتا ہے کہ وہ کس طرح نظریے کے بل بوتے پر اپنی سیاسی بقا کا سامان کرتی ہے۔ تحریک انصاف سے غلطی نہیں غلطیاں ہوئیں، مگر کہاں؟

رہائی کے بعد پانچ اگست تک وہ وقت تھا کہ عمران خان اپنی غلطیوں کو درست کر سکتے تھے مگر ایک مقبول سیاسی جماعت کو بحران سے میدان میں واپس لانے کا موقع کیوں گنوا دیا گیا؟ سیاسی طور پر متحرک جماعت کو محض پریشر گروپ کیوں بنا دیا گیا؟ اسٹیبلشمنٹ کو کندھا بنا کر بھر پور عوامی حمایت کو سیاسی طاقت میں کیوں نہ ڈھالا گیا؟تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی جماعت کو مذاکراتی میز پر کیوں نہ لا سکی اور سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کردہ ’میز‘ پر چھ مئی کے مذاکرات آخری ہچکی کیوں ثابت ہوئے؟

ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں تو حقائق پتہ چلیں گے مگر حقائق سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کا یوں زیر عتاب آنا مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے اُن نوجوانوں کی آنکھوں میں اُترتی مایوسی، دُکھ اور خوف کا مِلا جُلا ردعمل نظر آتا ہے جن کی سیاسی متاع تحریک انصاف تھی۔
عمران خان کو تین مقدمات میں سزا ہو چکی، سزاؤں کے اشتہار دیواروں پر چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ لفظوں کے تازیانے برسائے جا رہے ہیں اور ابھی القادر ٹرسٹ اور نو مئی کے مقدمات میں فیصلے ابھی باقی ہیں۔عمران خان کب جیل سے باہر آئیں گے اور کیسے اُن کی جماعت بقا کی جنگ لڑ پائے گی اس سوال کا جواب شاید ہر کوئی جانتا ہے۔

منظر نامہ بدل گیا ہے، انتخابات کا میدان سج چکا ہے اور آٹھ فروری کی رات جب نتائج آنا شروع ہوں گے تو بعد از انتخاب ایک اور پیش منظر ہو گا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نتائج دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوں گے، تحریک انصاف کے ’آزاد‘ بھی ڈوبتے، اُبھرتے اعداد و شمار کی بساط پر ہوں گے یا یوں کہیے کہ ہواؤں کے رُخ پر ہوں گے۔ یہ ’دیے‘ ہواؤں کے رُخ سے اپنی روشنی کا تعین کریں گے۔

اب تحریک انصاف کا آخری ’تکیہ‘ ووٹرز کا بےشمار تعداد میں نکلنا قرار پایا ہے مگر یہ ’اگر‘ اور پھر اِک صبر جو بہرحال پی ٹی آئی کو کرنا ہے۔ بالفرض یہ معرکہ بھی سر ہو تو کیا تحریک انصاف کی نشستوں یعنی ’آزاد امیدواروں‘ کی کامیابی دو تہائی اکثریت یا سادہ اکثریت کی صورت مل پائے گی؟موجودہ حالات میں یہ مشکل نظر آتا ہے جبکہ ان میں جیتنے والے کتنے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں گے یہ ایک الگ سوال ہو گا۔ تحریک انصاف کا ووٹر شش و پنج میں ہے کہ اُس کا ووٹ کس جگہ اور کس کو جا رہا ہے؟

سیاست کے بے رحم کھیل میں اصل کھیل شطرنج پر بچھی بساط میں مہروں کی چال سے جُڑا ہے اور اس مرحلے پر شاطر کھلاڑی بازی کھیلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ نو فروری کی صبح سے ایک اور بساط ہو گی۔ غم اور غصہ پرچی کے ذریعے نکل جائے گا۔ آج تک ووٹ کے لیے گرجنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ چُکے ہوں گے اور برس ہا برس سے میدان سیاست کے جغادری حکومت سازی میں مشغول ہو جائیں گے جبکہ بھانت بھانت کے بیانیے دم توڑ جائیں گے۔

ساتھی، جیوے جیوے فلاں جیوے، آوے ہی آوے، زندہ بادہ، مردہ باد کے نعرے لگانے والے کارکن، صحافی، سوشل میڈیا ایکٹو سٹ اور انفلوئنسرز سب اپنی کچھاروں میں واپس لوٹ جائیں گے اور تب اڈیالہ جیل کی بیرک میں بیٹھے عمران خان شاید کسی نئے دور کی تلاش شروع کریں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے