مچھ حملے کے بعد جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا، لواحقین کو غیرقانونی فارم پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

IMG_20240205_173158_361.jpg

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‌‎آپ اس حقیقت سے آگاہ ہونگے کہ گزشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک بلوچستان انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بلوچ نسل کشی جس میں سرفہرست مسئلہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف کیچ سے شال اور پھر شال سے دھرنے کی شکل میں اسلام آباد میں مارچ کیا گیا اور بلوچستان کے ہرشہر اور گاؤں سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف سڑکوں کا رخ کرتے ہوئے ریاست کی ان ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کیا لیکن بلوچ عوامی ردعمل کے باوجود ریاست بلوچستان میں اپنی پالیسیوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ لانگ مارچ میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس امید اور بھروسے سے مارچ میں حصہ لیا تاکہ ان کے پیاروں کو فیک انکاؤنٹر میں قتل نہ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ریاست بلوچستان کے حوالے سے اپنی ظالمانہ اور جابرانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ حالیہ مچھ واقعے کے بعد جس طرح زندان سے لاپتہ افراد کو نکال کر قتل کیا گیا یہ ظلم اور جبر کی انتہاءہے۔ ریاست مسلح افراد کی کارروائیوں کو جواز بناکر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کر رہی ہے۔ ریاست ایک جھوٹے بیانیے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہے لیکن حقیقت اس کا بلکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے نام لاپتہ افراد کے لسٹ میں موجود ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں مسلح جدوجہد کو جواز بنا کر جبری گمشدگی کے شکار افراد کا قتل عام کرو اور اس قتل عام کو جھوٹے بیانیہ کے ذریعے متنازعہ کیا جائے لیکن ہم ریاست پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماروائے عدالت قتل کرنے پر ہم کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‌‎مچھ واقعے میں جتنے بھی مسلح افراد شامل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی لاپتہ افراد کے لسٹ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خاندان نے ان کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ریاست بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد اٹھاتی ہے، انہیں دو مہینے، چار مہینے حتی کہ کئی افراد کو سالوں تک خفیہ زندانوں میں قید رکھا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں رہائی حاصل ہوتی ہے جن کی رہائی کی خبریں میڈیا اور لواحقین کی جانب سے شائع بھی کی جاتی ہے۔ اگر ان افراد کی تعداد کا اندازہ لگائیں جنہیں ریاست نے لاپتہ کرتے ہوئے اذیت دے کر چھوڑ دیا ہے ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ ہماری جبری گمشدگی کے حوالے سے اصولی موقف اپنی جگہ قائم ہے کہ جبری گمشدگی اقوام متحدہ سمیت ازخود پاکستان کے اپنے آئین و قانون کے مطابق سنگین جرم ہے ہے اگر ریاست کسی شہری کو مجرم سمجھتی ہے یا اس شہری پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام ہے تو ریاست کے پاس عدالتیں موجود ہیں، ملکی قانون کے تحت انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں اور قانون فیصلہ کرے کہ یہ لوگ بے گناہ ہے یا مجرم ہے اگر ان پر کوئی بھی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزا دینے کے لیے عدالتیں موجود ہیں لیکن اس طرح غیر قانونی طور پر لوگوں کو جبری طور پر گرفتار کرکے انہیں مہینوں اور سالوں خفیہ زندانوں میں قید رکھنا اور کسی بھی مسلح کارروائی کی رد عمل میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو حراست سے نکال کر قتل کرنا نا بلکہ انسانیت کی دھجیاں اڑانے کے برابر ہے بلکہ ریاستی قانون اور آئین کو بھی روندنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‌‎کل مچھ واقعے کے بعد اس وقت 5 افراد کی ایسی لاشیں لائی گئی ہیں جن میں سے 4 لاشوں کو ان کے لواحقین نے شناخت کیا ہے جو پہلے سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر گمشدہ تھے۔ جبکہ باقی ایک لاش کے حوالے سے بھی ہمیں خدشہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کے شکار افراد تھے۔ جن چار لاشوں کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں 2 جولائی 2023 کو جبری طور پر اٹھایا گیا تھا ، اور صوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے 9 ستمبر 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا جن کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی جن کے خاندان کے مطابق انہیں 4 جون 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا،اور ان کے جبری گمشدگی کے تمام تر ثبوت موجود ہے۔جبکہ ان کے بچوں کو زندہ و سلامت رہا کرنے کے بجائے ان کے لاشیں پھینکی گئی اور آج وہ لواحقین یہاں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے آئے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بلوچستان میںپرامن جدوجہد کی تمام راہیں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ لوگ ریاست سے مایوس ہوں۔ جبکہ دوسری جانب سول اسپتال میں لائی گئی لاشوں کیلئے آنے والے خاندان کو جس طرح ذہنی کوفت سے گزارا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ آج بلوچستان میں ریاست کے حوالے سے بڑھتی مایوسی کا زمہ دار ریاستی ادارے ہیں جو مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان میں خوف پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ارمان مری اور بشیر مری کے لواحقین اس امید سے اسلام آباد آئے کہ انہیں اس ریاست سے انصاف ملے گا جو کہ ہر شہری امید رکھتی ہے لیکن انصاف کے بجائے انہیں ان کے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جبکہ ان میں سے ایک لاش اتنی مسخ کی گئی ہے کہ اس کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ جو بلوچ دشمنی اور بلوچوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔ جن پانچ لاشوں کو کل سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا ہے ان کے حوالے سے ریاستی ادارے یہ جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پانچ افراد مسلح تھے اور مچھ واقع میں مارے گئے ہیں لیکن ریاست اس چھوٹی سی بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے بیانیہ بنانے سے ریاست اپنے مظالم اور جبر کو چھپا نہیں سکتی ہے۔ ان پانچ افراد میں سے دو کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی شناخت کی ہے جو پہلے سے جبری طور پر گمشدہ تھے اور ان کی جبری گمشدگی کے تمام تر ثبوت موجود ہے۔ جبکہ ایک اور بات ہم ریاستی اداروں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جو دو خاندان کل سے یہاں سول ہسپتال میں موجود ہے جن کے بچوں کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا ہے ان خاندان کو اپنے بچوں کے لاشوں کو لینے کے لیے زبردستی ایک غیر قانونی فارم دستخط کرنے کے لیے دیا جارہا ہے جس میں زبردستی ان کے بچوں کو دہشتگرد ثابت کیا جارہا ہے لہذا جن جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا ہے ان کے خاندان کسی بھی صورت اس غیر قانونی فارم کو دستخط نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‌‎جبکہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت لائی جا رہی ہے۔لاپتہ افراد کو پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرکے ریاست نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گا۔ ہم اقوام متحدہ سمیت ہیومن رائٹس اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ان واقعات کا نوٹس لیں جبکہ بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی کے بدلے سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے