روس میں انڈین سفارتخانے کا ملازم پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار

e66601f0-c41b-11ee-97bb-5d4fd58ca91c.jpg

انڈین پولیس نے روس میں انڈین سفارت خانے کے ایک ملازم کو پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

انڈین ریاست اُتر پردیش کی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (اے ٹی ایس) نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ گرفتار کیا گیا شخص ستیندر سیوال ہاپوڑ کا رہائشی ہے اور روسی دارالحکومت ماسکو میں انڈین سفارتخانے میں تعینات تھا۔پولیس نے بتایا کہ ’اے ٹی ایس کو خفیہ ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ہینڈلرز انڈین فوج اور اس کی خفیہ حکمت عملیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انڈین وزارتِ خارجہ کے ملازمین سے رابطے کرنے کے کوشش کر رہے ہیں۔مقامی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق ستیندر سیوال فون پر ایک خاتون ایجنٹ سے رابطے میں تھے اور ان کے ساتھ خفیہ معلومات بھی شیئر کیں۔
اس معاملے کی تفتیش میں شامل ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’ستیندر کی اس (خفیہ) معلومات تک رسائی تھی کیونکہ وہ سفارت خانے میں کام کرتے تھے۔ فوج اور سفارت خانے فوج کی نقل و حرکت اور تعیناتی وغیرہ کے بارے میں باقاعدگی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے آئی ایس آئی کے ساتھ شیئر کی۔ستیندر ایک شادی کی تقریب کے لیے انڈیا کے دورے پر تھے اور سنیچر کے روز گرفتاری کے بعد انھیں 14 دن کے لیے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار کرنے سے پہلے انھیں انسداد دہشت گردی سیل کے مقامی دفتر میں اپنے عمل کی وضاحت کے لئے طلب کیا گیا تھا لیکن وہ تفتیش کاروں کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور مزید تفتیش کے دوران اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔انڈین وزارتِ خارجہ کے ذرائع نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

دفاعی نقطہ نظر سے ماسکو انڈیا کے لیے ایک اہم ملک ہے کیونکہ روس روایتی طور پر انڈین فوجی سازوسامان کا ایک اہم حصہ فراہم کرتا رہا ہے۔انڈیا روس کو اپنے سب سے وفادار اتحادیوں میں شمار کرتا ہے، جو کہ یوکرین جنگ کے بعد انڈیا کو توانائی فراہم کرنے لے لحاظ سے مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ستیندر صرف پیسوں کے لیے کام کر رہے تھے یا وہ ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار ہوئے تھے۔جولائی 2023 میں انڈیا کی ’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن‘ (ڈی آر ڈی او) کے ایک سینئر سائنس دان پردیپ کورولکر کو ایک خاتون کے ساتھ حساس معلومات شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس خاتون نے اپنی شناخت زارا داس گپتا بتائی تھی اور وہ مبینہ طور پر ایک پاکستانی خفیہ ایجنٹ تھی۔پولیس نے الزام لگایا کہ پردیپ نے انہیں عریاں تصویروں اور ’جنسی نوعیت‘ کے پیغامات کے تبادلے کے دوران پاکستانی ایجنٹ کو حساس دفاعی پروجیکٹس سے متعلق معلومات فراہم کیں۔فروری 2023 میں ریاست اوڈیشہ میں ’ڈی آر ڈی او‘ کے ایک سینئر تکنیکی افسر بابورام ڈے کو بھی مبینہ طور پر ایک پاکستانی خاتون جاسوس کے سامنے انڈیا کے میزائل تجربات کے راز افشا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جون 2022 میں حیدرآباد پولیس نے ’ڈی آر ڈی او‘ کے ایک کنٹریکٹ ملازم ڈکا ملیکارجن ریڈی کو مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آی کے مشتبہ ایجنٹ کے ساتھ حساس معلومات شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ اس ایجنٹ نے ریڈی سے فیس بک کے ذریعے رابطہ قائم کیا تھا اور ان سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔اسی طرح اکتوبر 2020 میں مہاراشٹر پولیس نے انڈیا کی سرکاری دفاعی کمپنی ’ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ‘ کے دیپک شرسات نامی ایک افسر کو مبینہ طور پر ایک پاکستانی خاتون جاسوس کو انڈین لڑاکا طیاروں اور کمپنی کے مینوفیکچرنگ یونٹ کی تفصیلات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔

مبینہ جاسوسی کے اسی طرح کے معاملے میں اکتوبر 2023 میں گجرات پولیس نے ایک پاکستانی نژاد شخص کو گرفتار کیا تھا، جنہیں 2006 میں انڈین شہریت ملی تھی اور جو مبینہ طور پر پاکستانی ایجنٹوں کو انڈین فوج کے بارے میں حسّاس معلومات تک رسائی میں مدد کر رہے تھے۔پولیس نے ان کی گرفتاری کے وقت الزام لگایا تھا کہ لابھوشنکر مہیشوری نامی اس شخص نے پاکستانی ایجنٹس کو انڈین سِم کارڈز تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کی تھی جنہیں وہ آرمی سکولوں میں انڈین دفاعی اہلکاروں کے بچوں کے فون ہیک کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ستیندر سیوال کے کیس سے تقریباً ایک دہائی پہلے بدنام زمانہ مادھوری گپتا کیس سامنے آیا تھا۔اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے پریس افسر کے طور پر تعینات گپتا مبینہ طور پر ایک آئی ایس آئی ایجنٹ کے ساتھ محبت میں مبتلا ہوگئی تھیں اور ان سے افغانستان میں انڈیا کی موجودگی کے بارے میں دستاویزات شیئر کر بیٹھی تھیں۔ان کی مبینہ سرگرمیاں اس وقت منظر عام پر آئیں جب وہ دہلی چھٹی پر آئی تھیں اور انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ 2021 میں جیل میں وفات پاگئی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے