انصار اللہ کتنی طاقتور ہے اور اس سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟
انصار اللہ جنگجوؤں کے پاس سب سے طاقتور افواج میں سے ایک ہے جس کی موجودگی سے دنیا اکثر چونک جاتی ہے۔ وہ ہر اس بین الاقوامی بحری جہاز پر میزائل داغ دیتے ہیں جس کا انھیں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل سے تعلق نظر آتا ہے، یا اگر نہیں بھی نظر آتا پھر بھی۔انھوں نے عالمی تجارت پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ کئی بحری جہازوں کو ہزاروں میل دور تک اپنا رُخ موڑنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اُن کے اڈوں پر فضائی کارروائیاں بظاہر انھیں روک نہیں سکیں۔ بلکہ انھوں نے امریکہ اور برطانیہ سے جڑے اہداف کے خلاف جوابی کارروائیوں کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔تو یہ انصار اللہ /حوثی کون ہیں، وہ اتنے طاقتور کیسے ہوئے اور اب بحیرۂ احمر میں آگے کیا ہو گا؟
حوثی کون ہیں؟
حوثی یمن کے شمال مغربی پہاڑی علاقے کا ایک مزاحمتی گروہ ہے۔ ان کا نام تحریک کے بانی حسین الحوثی سے انھیں ملا۔سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے یمن کے طاقتور حکمرانوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ جب یمن کی حکومت عرب سپرنگ کے مظاہروں کی بدولت اقتدار سے ہٹی تو حوثیوں نے دارالحکومت صنعا کی طرف پیش قدمی کی اور 2014 پر اقتدار پر اپنا قبضہ جما لیا۔اقتدار سے بے دخل کیے گئے سابق صدر صالح نے اپنے وفادار ریپبلیکن گارڈ کے دستے ان کے حوالے کر دیے جس کی بدولت انھوں نے یمن کی 80 فیصد آبادی کا کنٹرول سنبھال لیاجب سے سب سے غریب عرب ممالک میں سے ایک یمن میں حوثیوں نے اقتدار سنبھالا ہے یہاں خانہ جنگی سے کافی نقصان ہوا ہے۔قریب ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ لاکھوں لوگ خوراک کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔سات سال تک حوثیوں نے اپنے خلاف سعودی سربراہی میں فضائی کارروائیوں کے مقابلہ کیا۔ سعودی عرب کو خدشہ تھا کہ حوثیوں کے اس کے حریف ایران سے قریبی تعلقات ہیں۔ورجینیا میں قائم تنظیم ’نوانتی‘ میں مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار محمد الباشا کا کہنا ہے کہ ’حوثیوں کی فاتحانہ ذہنیت ہے۔ یہ سوچ دو دہائیوں پر محیط فتوحات کی وجہ سے قائم ہوئی۔‘
’انھوں نے 2015 سے 2022 تک مزاحمت دکھائی ہے۔ انھوں نے سعودی قیادت میں اس اتحاد کا مقابلہ کیا جو صنعا میں عالمی حمایت یافتہ حکومت کا قیام چاہتا تھا۔‘نومبر 2023 کے وسط سے حوثیوں نے علاقائی اہمیت کی حامل آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔اس کا مقصد حماس کی حمایت میں اسرائیلی تعلق رکھنے والے ہر تجارتی بحری جہاز کو نشانہ بنانا تھا۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں جنگ بند نہیں کرے گا یہ حملے جاری رہیں گے۔
جب یمن کے بحیرۂ احمر کے ساحل کے قریب ان جہازوں کے ساتھ امریکی اور برطانوی جنگی جہاز بھی آنے لگے تو حوثیوں نے اپنے حملوں کا رُخ اُن کی طرف موڑ دیا۔محمد الباشا کہتے ہیں کہ ’یہ حوثیوں کی فاتحانہ سوچ اور فخر کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔ گروہ کے کچھ رکن خدا کی طرف سے مداخلت کی امید کرتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے جیت انھی کی ہو گی۔‘
اس لڑائی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟
بہت کم امکان ہے کہ حوثی ہار مانیں گے۔ فٹن براؤن کہتے ہیں کہ ’وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔‘
’اگر (غزہ میں جنگ بندی ہوتی ہے) تو وہ اعلان فتح کر سکتے ہیں۔ وہ دعویٰ کریں گے کہ انھوں نے اہداف حاصل کر لیے۔ اگر ایران کو لگا کہ حوثیوں کی کارروائیاں ایران کو خطرے میں ڈال رہی ہیں تو اس کا اثر و رسوخ حوثیوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا۔‘ابھی کے لیے جنوبی بحیرۂ احمر کی لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہوئی۔حوثی فوجی دباؤ کے باوجود اپنے حملے نہیں روک رہے۔ ان کے ایک، ایک کر کے میزائلوں کے اڈوں کو امریکی فضائی بمباری میں تباہ کیا جا رہا ہے۔واضح ہے کہ ان کے پاس بڑی مقدار میں اسلحہ موجود ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے مقامات کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ مغربی جنگی جہاز گرا سکیں۔جنوبی بحیرۂ احمر اور خلیف عدن مستقبل میں دنیا کے خطرناک ترین حصوں میں سے ایک رہے گا۔