جب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران: محمد حنیف کا کالم
اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگا کر ہمیں گیان بانٹنے والے بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال لگیں گے۔ جس عجلت کے ساتھ عمران خان کو سزائیں سُنائی جا رہی ہیں تو عدالتی فیصلوں میں بہت سے قانونی سُقم ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں معطل ہوں گے۔
تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت ہی لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، پر یہ بیزاری دشمن داری میں تبدیل ہوتی ہے۔
فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ عمران خان تین سال کی سزا پہلے ہی کاٹ رہے تھے، پھر ایک دن دس سال کی سزا، اُس سے اگلے دن 14 سال کی سزا۔
مبصرین ان سزاؤں کے محاسن اور نقائص بتا رہے تھے میرا دماغ کیلکولیٹر بنا ہوا تھا کہ جتنے عمران خان پر مقدمات ہیں اور جس تیزی سے فیصلے آ رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کے دن تک عمران خان کو کم از کم ڈیڑھ ہزار سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پرایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں (جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے) ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر ’عدت کے دوران‘ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
عمران خان نے جب اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا تو اُن پر دو الزام لگتے تھے کہ وہ ذرا طبعیت کے عیاش ہیں اور سیاسی طور پر بے وقوف ہیں۔ پاکستان میں کسی مرد سیاستدان کی چھوٹی موٹی عیاشیاں اُن کے حق میں ہی جاتی ہیں اور اس سیاسی بے وقوفی نے سب پرانے سیانوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو ایک ہلکا پھلکا لطیفہ یا آئٹم نمبر سمجھتے تھے انھیں بھی اُن کے قہر کی تپش محسوس ہوئی۔
لیکن آخر میں اُن سے وہی غلطی ہوئی جو پاکستان میں منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی ہوتی ہے یعنی وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں۔ اور وہ اپنی اس پہلی بھول پر اپنے لیے اڈیالہ میں یا سہالا میں یا اٹک قلعے والی جیل میں ایک سیل بُک کروا لیتے ہیں۔
ان جیلوں کے سب سے بڑے عادی رہائشی اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیل سیاستدانوں کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ انھیں اب کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک اور سیانے نے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے جیل میں سوشل میڈیا سے دور رہے گا تو کچھ عقل آجائے گی۔
سوشل میڈیا کے شور پر ملک میں حکمرانی کرنے کے خواب دیکھنے والے دیوانے بہت ہیں۔ ان سے ان کی پارٹی چھین لی گئی ہے، جنھوں نے انھیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا تھا وہی ان کو غدارِ وطن کہتے ہیں۔
ان کے خوابوں میں اب بھی یہ آس باقی ہے کہ وہ الیکشن کے دن اپنی ایپس اور واٹس ایپس کے ذریعے، اپنا خواب زندہ رکھنے کے لیے، اپنے خان کے لیے، اتنے ووٹ ڈالیں گے کہ اڈیالہ جیل کی دیواریں ہل جائیں گی۔ قیدی نمبر 804 کو قید نہ رکھ پائیں گی۔ اور وہ پھر ہمارے درمیان میں ہوگا۔ پاکستان میں الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی پر بہت پابندیاں ہیں لیکن خواب دیکھنے کی پابندی نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہزار سال کی قید پوری کر کے اڈیالہ جیل سے نکلیں، باہر پھر الیکشن ہو رہا ہو، ملک میں کرکٹ کا خاتمہ ہو چکا ہو اور وادی میں بیٹھا کوئی سیانا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ایوب خان کے دور میں سب اچھا تھا، ہم آپ کو وہیں لے جا رہے ہیں۔