ٹاور 22: ڈرون حملے کا نشانہ بننے والا پُراسرار فوجی اڈہ جسے امریکہ اور اردن دونوں خفیہ رکھنا چاہتے تھے
اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے ڈرون حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد صدر بائیڈن نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اس حملے کا ردِ عمل کیسے دیں گے۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے ان ریمارکس کی وضاحت تو پیش نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر جنگ کرنی چاہیے۔خیال رہے کہ ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس حملے میں درجنوں فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔یہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے بعد پہلی مرتبہ ہے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں
ٹاور 22 فوجی اڈہ کہاں ہے؟
یہ حملہ شمال مشرقی اردن میں ایک ایسے امریکی فوجی اڈے پر کیا گیا تھا جسے ٹاور 22 کہا جاتا ہے۔ یہ شام کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے نیوز کو بتایا ہے کہ دشمن ڈرون ’انتہائی نیچی سطح پر سست رفتار سے پرواز‘ کر رہا تھا اور یہ عین اس وقت اڈے کی جانب آیا جب ایک امریکی ڈرون مشن کے بعد اڈے پر واپس آ رہا تھا۔اہلکار کے مطابق امریکی ڈرون کی واپسی کے پیشِ نظر اڈے میں موجود ایئر ڈیفنس نظام کے آٹومیٹک فیچرز بند کر دیے گئے تھے تاکہ یہ کہیں امریکی ڈرون کو نہ مار گرائیں۔اس کے نتیجے میں ٹاور 22 میں موجود فوجیوں کو کسی قسم کی وارننگ نہیں مل سکی تھی اور وہ اس وقت اپنے کمروں میں سو رہے تھے جب ڈرون حملہ ہوا۔
اس اڈے میں تقریباً 350 امریکی فوجی تعینات ہیں اور امریکہ کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے مطابق ان کا کام اتحادی فوجوں کو حمایت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ عسکریت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا مقابلہ کر سکیں۔یہ اڈہ ایک ایسے غیر فوجی زون میں موجود ہے جو اردن اور شام کی سرحد کے قریب واقع ہے اور عراقی سرحد بھی صرف 10 کلومیٹر دور ہے۔اس علاقے کو رکبان کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں شامی سرحد کے پار سنہ 2014 میں دولتِ اسلامیہ کی نام نہاد خلافت کے دوران بڑے پیمانے پر پناہ گزین کیمپ بنائے گئے تھے۔
یہاں ایک وقت میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے تھے اور اردن کی جانب سے ان کی ملک میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ملک میں انتہا پسند گروہ داخل نہ ہو جائے۔ یہ خدشہ اس وقت درست ثابت ہوا جب سنہ 2016 میں ایک کار بم حملے میں اردن کے سات باڈی گارڈز مارے گئے تھے
بی بی سی عربی کے خصوصی نامہ نگار فارس کیلانی ان صحافیوں میں شامل ہیں جو سنہ 2016 میں اس فوجی اڈے کا دورہ کر چکے ہیں۔ تاہم اس دورے کے دوران انھیں فلمنگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ امریکی فوجی اڈہ دراصل خفیہ رکھا جانا تھا اور نہ تو اردن نہ ہی امریکہ نے اردن کی سرزمین پر اپنے فوجی اڈے کی موجودگی افشا کرنی تھی۔
تاہم اس حملے کے بعد پینٹاگون کو سنہ 2016 میں قائم ہونے والے اڈے کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ اس کی لوکیشن کے بارے میں بتانا پڑا۔فارس کے مطابق وہ اردن کے فوجی اڈے سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس اڈے تک گئے تھے اور فضا میں ہی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ اڈہ شام کے کتنا قریب ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’سرحد پار مجھے ہزاروں ایسے خیمے نظر آئے تھے جو صحرا کے بیچ میں شام کے پناہ گزینوں کی جانب سے لگائے گئے تھے۔
’اس اڈے کے اردگرد خاردار تاروں سے لدی اونچی دیواریں تھیں اور ان پر فوجی کیمرے نصب تھے اور اس کی حفاظت کے لیے چاروں اطراف سے اردن کی فوج تعینات تھی۔ میں نے نوٹس کیا کہ سادہ لباس میں بھی متعدد افراد یہاں موجود تھے، چھوٹی گاڑیاں، بنکرز اور مواصلاتی ٹاورز بھی نظر آئے۔دولتِ اسلامیہ نے سنہ 2016 میں ایک کار بم حملے کے ذریعے اس اڈے کو نشانہ بنایا تھا اور اس سے اردن کے چھ فوجی ہلاک ہو گئے تھے جو اڈے کی حفاظت کر رہے تھے۔ اس وقت اردن کی فوج نے کہا تھا کہ یہ اس کا اپنا اڈہ ہے۔
امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کیوں موجود ہے؟
جس اڈے کو اس ہلاکت خیز حملے میں نشانہ بنایا گیا وہ ان درجن بھر سے زیادہ اڈوں میں سے ہے جہاں عراق، اردن اور شام میں امریکی فوجی موجود ہیں۔گذشتہ چند ماہ کے دوران ان فوجی اڈوں کو ایسے عسکریت پسند گروہوں نے نشانہ بنایا ہے جن پر امریکہ کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھیں ایران کی جانب سے ٹریننگ، فنڈنگ اور اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔اس وقت اردن میں تین ہزار جبکہ عراق میں 2500 امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ فوجیں یہاں عراقی حکومت کی درخواست پر یہاں موجود ہیں تاکہ یہاں دولتِ اسلامیہ کو پنپنے سے روکا جا سکے۔
شام میں اس 900 امریکی فوجی تعینات ہیں جو یہاں دولتِ اسلامیہ مخالف کردوں کی سربراہی میں شامی ڈیموکریٹک فورسز کی مدد کے لیے موجود ہے۔شامی حکومت امریکہ کی اپنے ملک میں موجودگی کے مخالف ہے اور وہ اسے قبضہ قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی اس کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی متعدد اڈے ہیں جن میں سے تین بڑے فضائی اڈے بھی خطے میں موجود ہیں جبکہ بحرین میں بندرگاہ بھی ہے جو امریکی نیول فورسز سینٹرل کمانڈ اور امریکی ففتھ فلیٹ کا ہیڈکوارٹر تصور کیا جاتا ہے۔
عسکریت پسند تنظیم اسلامی مزاحمت کیا ہے؟
عراق میں عسکریت پسند تنظیم اسلامی مزاحمت نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں اردن کے ٹاور 22 پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔پوسٹ میں تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے شام اور اردن میں امریکی اڈوں شدادی، رکبان اور تنف پر حملے کیے جبکہ بحیرہ روم میں اسرائیلی تیل کے ذخائر پر حملہ کیا ہے۔
یہ گروہ سنہ 2023 کے اواخر میں منظرِ عام پر آیا ہے یعنی سات اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کیے جانے کے فوری بعد۔امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تنظیم عراق میں موجود مبینہ طور پر ایران کی حمایتِ یافتہ ملشیا سے مل کر بنی ہے اور اس نے گذشتہ ہفتوں میں امریکی فوجوں پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔عراق میں اسلامی مزاحمت متعدد شیعا ملیشیا گروہ جیسے کاتیب حزب اللہ، نجابہ اور کاتیب سید الشہدا سے مل کر بنائی گئی ہے جو اس سے پہلے بھی شام اور عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔تہران کی جانب سے خطے میں اپنی پراکسیز اور اتحادی گروہوں کو ’ایکسز آف رزسٹینس‘ کہا جاتا ہے جسے مخالفین کے خلاف ایک دفاعی فورس کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ان گروہوں کا مقصد واشنگٹن کے لیے یہ مشکل بنانا ہے کہ وہ اپنے حملوں کا مرکز کسی مخصوص گروہ کو بنائیں۔