نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا کردار

aod-globe-marquee-500x350.png

 

یہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں ان جنگوں کی فاتح قوتوں کی جانب سے تشکیل پانے والا ورلڈ آرڈر اب شدید متزلزل ہو چکا ہے اور دنیا نئے ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس عبوری صورتحال کی ایک نشانی دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر عالمی طاقت ہونے کے دعویدار ممالک کے باہمی معاملات میں تبدیلی نیز بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے طریقہ کار میں واضح تبدیلی ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کا کردار بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے جو سابقہ ورلڈ آرڈر کے خاتمے اور نیا ورلڈ آرڈر ابھر کر سامنے آنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ابھی یوکرین جنگ کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا خوف اور تشویش ختم نہیں ہوا تھا کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حماس کے کامیاب طوفان الاقصی آپریشن نے بھی ان کی نیندیں حرام کرنا شروع کر دی ہیں۔

 

طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی دفاعی صلاحیتوں اور فوجی طاقت پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے اس ذلت آمیز شکست کی خفت مٹانے کیلئے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی سمیت مختلف قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب شروع کر دیا ہے۔ یوں مغربی ایشیا (مشرق وسطی) خطے میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے یوکرین جنگ کی طرح غزہ جنگ میں بھی غاصب صیہونی رژیم کے حق میں مداخلت شروع کر دی ہے۔ وہ ایک طرف صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ فوجی اسلحہ اور ممنوعہ ہتھیار فراہم کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف خارجہ سیاست اور سفارتکاری کے میدانوں میں بھی کھلم کھلا صیہونی حکمرانوں کی بھرپور حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنے سے لے کر نام نہاد فوجی اتحاد تشکیل دے کر یمن پر فضائی جارحیت اس کے واضح نمونے ہیں۔

 

دوسری طرف خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل مختلف قوتیں جیسے حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بھی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہ عراق اور شام میں امریکہ کے فوجی اڈوں سمیت بحیرہ احمر میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ انصاراللہ یمن نے اعلان کیا ہے کہ جب تک غزہ پر صیہونی جارحیت روک نہیں دی جاتی اور اس کے خلاف ظالمانہ گھیراو ختم نہیں کیا جاتا بحیرہ احمر میں اسرائیلی بندرگاہوں کی جانب جانے والی ہر کشتی کو روکا جائے گا اور نہ رکنے کی صورت میں اسے میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی ممالک پر دباو ڈال کر اہل غزہ کے خلاف جاری ظلم و ستم روکنا ہے۔

 

صیہونی حکمران امریکہ کی غیر مشروط مدد اور آشیرباد کے نتیجے میں تمام بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ میں مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف بدترین مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف خطے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اس ظلم و ستم کو روکنے کیلئے اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے مفادات کو زک پہنچانے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی تجارتی کشتیوں کی آمدورفت روک دینے نے اسرائیل کو شدید اقتصادی دھچکہ پہنچایا ہے۔ اس نقصان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ ایک نام نہاد فوجی اتحاد تشکیل دے کر یمن پر ٹوٹ پڑا ہے۔ یمن پر امریکہ، برطانیہ اور چند دیگر ممالک کے فضائی حملوں کے بعد انصاراللہ یمن نے بھی نشانہ بننے والے بحری جہازوں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔

 

عراق حکومت نے بھی امریکہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اب مزید امریکی فوجیوں اور فوجی اڈوں کی سکیورٹی یقینی نہیں بنا سکتی جبکہ داعش کے خاتمے کے بعد اب عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی بھی زیادہ ضروری نہیں ہے لہذا جلد از جلد فوجی انخلاء ممکن بنائے۔ امریکی اور عراقی حکام کے درمیان عراق سے مکمل فوجی انخلاء یا فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے بارے میں مذاکرات شروع ہونے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ یوں عراق سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مغربی ایشیا میں جنم لینے والے تنازعات اور موجودہ ورلڈ آرڈر میں امریکہ کی حیثیت پر ان کے اثرات کی روشنی میں درج ذیل ممکنہ حالات نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں موثر واقع ہو سکتے ہیں:

1) موجودہ تنازعات میں امریکہ یا اسلامی مزاحمتی بلاک کی فتح یا شکست،

2) دیگر ممالک کی جانب سے غیر جانبداری کا مظاہرہ یا فریقین میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا،

3) امریکہ کی موجودہ صورتحال پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت اور طاقت۔

 

امریکہ یا اسلامی مزاحمتی بلاک کی فتح یا شکست کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن خطے کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نیز کچھ یورپی ممالک کا اس تنازعہ میں غیر جانبداری کا فیصلہ اہم ہے۔ امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی میں مداخلت ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کے مترادف ہے۔ امریکہ نے صیہونی رژیم کی شکست میں شریک ہو کر اپنے طاقت کو داو پر لگا دیا ہے جس کے باعث اس کی طاقت کے زوال میں تیزی آئی ہے۔ یوں امریکہ نے غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور اور کھلم کھلا حمایت کر کے بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی کی ہے۔ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں آ کر امریکہ نے موجودہ ورلڈ آرڈر کے خاتمے اور نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے عمل کو بھی تیز کر دیا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا سمیت دنیا بھر میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور امریکہ نے خود کو اس کا سب سے بڑا حامی قرار دے کر دنیا بھر میں اپنی محبوبیت کو آگ لگا دی ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کا اثرورسوخ اور طاقت تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہے اور یہ سب کچھ خطے میں اسلامی مزاحمت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے