عمران خان کا ووٹر سائفر کیس کے فیصلے سے مایوس ہوگا یا متحرک

2589421-imrankhan-1704978823-734-640x480.jpg

کیا سائفر کیس کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کا ووٹر الیکشن کے دن باہر نکلے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو انتخابات سے قریب ایک ہفتہ قبل حساس معلومات منظر عام پر لانے کے الزام میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو سنائی گئی سزاؤں کے بعد سے دہرایا جا رہا ہے۔

ایسے میں اکثر افراد سنہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال کا بھی حوالہ دے رہے ہیں جب انتخابات سے چند ہفتے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو مختلف مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی جبکہ رہنما مسلم لیگ ن حنیف عباسی کو الیکشن سے چار روز قبل رات گئے ایفیڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

الیکشن اور سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو الیکشن کے نزدیک سزا ہونے کے باعث مذکورہ جماعت کے ووٹرز بددل ہو سکتے ہیں اور وہ ووٹ دینے سے اجتناب کر سکتے ہیں۔پاکستان میں ماضی میں انتخابات کے نتائج اس حد تک متنازع رہے ہیں کہ اس مفروضے کو جانچنے کا کوئی ٹھوس طریقہ کار نہیں ہے اور بعض ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ حربہ اس کے برعکس ووٹرز کو ووٹ دینے پر اکسا بھی سکتا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور حمایتیوں کے لیے سنہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے باعث اقتدار سے برطرفی کے بعد سے صورتحال خاصی ناسازگار رہی ہے۔اب الیکشن سے ڈیڑھ ہفتہ پہلے صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیے جانے کے بعد پارٹی کی نمائندگی کرنے والے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، جماعت کے بانی اور وائس چیئرمین سمیت مرکزی قیادت کے متعدد اراکین یا جیلوں میں ہیں یا پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔خیال رہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات پہلے ہی تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں اور ان کے انعقاد سے متعلق کافی عرصے تک ابہام پایا جاتا تھا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انتخابات سے قبل ان سے بلے کا نشان واپس لینے اور عمران خان کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حمایتی وٹروں کو الیکشن سے پہلے بد دل کرنا ہے۔عمران خان سمیت پارٹی کے متعدد رہنما یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایسا ملک میں پی ٹی آئی کی بے پناہ مقبولیت کا سدِ باب کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔الیکشن کے نزدیک پی ٹی آئی کے بانی کو سزا سنانے سے سیاسی منظرنامے پر کیا اثرات پڑیں گے؟

ایسے فیصلوں سے سویلین ادارے خود کو کمزور اور عوام کو نظام سے بد دل کرتے ہیں‘

سوشل میڈیا پر سائفر کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد سے سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ن لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ ان انتخابات سے قبل ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بنائے گئے مقدمات میں اب انھیں بری کیا جا چکا ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ’آج سے کچھ سال بعد یہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہوں گے اور یہی عمران خان ہوں گے اور یہی اسٹیبلشمنٹ ہو گی اور فیصلہ سنایا جائے گا کہ سائفر کیس کی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے اور اقرار کیا جائے گا کہ عمران خان اور شاہ محمود کا ٹرائل سیاسی انتقام کی نظر ہو گیا تھا۔

’یہی آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ہوا، یہی میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ مگر قوم کو، عوام کو اور جمہور کو یہ کھویا ہوا وقت کوئی نہیں لوٹا پائے گا۔ ہر ایسے فیصلے کہ ساتھ سویلین ادارے خود اپنے آپ کو کمزور اور عوام کو اس نظام سے بد دل کرتے ہیں۔‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2018 کے انتخابات سے پہلے بھی ہم نے دیکھا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی تھی اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کو بھی۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے اور عمران خان یہ ثابت نہیں کر سکے کہ ان کی سائفر کی کاپی کہاں گئی اور یہ کہ انھوں نے اسے سیاسی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کا خلاصہ ایسے کر لیں کہ جس نظام کے تحت یا جس طریقے سے اربابِ اختیار کی جانب سے انھیں اقتدار میں لایا گیا تھا اسی طرح اب انھیں نکالا جا رہا ہے۔‘

اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش کیوں؟

پیر کو اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی غیرمعمولی سماعت جاری تھی جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ’اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات‘ کی خواہش کا اظہار کیا۔

یہ سماعت رات تقریباً دو بجے تک جاری رہی اور منگل کی دوپہر بانی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی گئی ہو اس سے پہلے بھی متعدد سماعتوں کے دوران ان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر تنقید بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔برق رفتاری سے چلنے والے سائفر ٹرائل اور انتخابات سے ٹھیک نو روز قبل سزا کے بعد اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کے فی الحال بند ہو گئے ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا ’عمران خان جب بھی کمزور پچ پر آتے ہیں تو مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اس سے پہلے جب حکومت کے ساتھ انتخابات کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ عمران خان تھے۔انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کی یہ حکمتِ عملی بہت غیر مستحکم ہے کہ وہ سیاسی پراسس اور سیاسی لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔’وہ پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنے کے لیے تیار تھے اور ان ہی پر تنقید بھی کرتے تھے اور اب بھی انھی سے بات کرنے کی بات کر رہے ہیں، ان کی حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘

کیا پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس ہو گا؟

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن سے قبل جو سوئنگ ووٹر ہوتا ہے وہ اسی جماعت کو ووٹ کرتا جس کے بارے میں اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ فتح یاب ہو گی۔الیکشن کے نزدیک اس قسم کا فیصلہ آنے کے باعث یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ کیا اس کے بعد پی ٹی آئی کا ووٹر ووٹ ڈالنے نکلے گا؟

صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ ’الیکشن سے چند دن پہلے اتنی تیز رفتار سے مقدمہ چلانے کا مقصد شاید یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر کو مایوس کیا جائے اور یہ پیغام دیا جائے کہ اب عمران خان 10 سال تک جیل سے نہ نکل سکے گا، تاکہ وہ آٹھ فروری کو ووٹ دینے کے لیے نہ نکلیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمران خان ٹرائل کے دوران اپنے وکلا اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے تھے اور انھیں خاموش رکھنے کے لیے سزا دی گئی ہے تاکہ وہ کم از کم الیکشن سے پہلے میڈیا نمائندوں سے نہ مل سکیں۔‘

تاہم منیزے جہانگیر کے مطابق ’پی ٹی آئی کے ووٹر کو یہ نہیں معلوم کہ عمران خان کو سائفر کیس میں سزا کیوں ہوئی اور اس کے محرکات کیا تھے، انھوں نے یہ پہلے بھی ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو اس لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مایوس ہوں۔‘

پی ٹی آئی کے ووٹر ٹرن آؤٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک پی ٹی آئی کا ووٹر اس فیصلے کے بعد بددل ہو سکتا ہے اور شاید اب وہ یہ سوچ کر ووٹ دینے نہ نکلیں کہ بانی پی ٹی آئی کو اب دو مقدمات میں سزا ہو چکی ہے اور پی ٹی آئی کا چہرہ عمران خان ہیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ لوگ ووٹ دینے نہ نکلیں۔‘مذاکرات پر آمادگی سے متعلق بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ عمران خان جب بھی کمزور پچ پر آتے ہیں تو مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اس سے پہلے جب حکومت کے ساتھ انتخابات کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ عمران خان تھے۔انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کی یہ حکمتِ عملی بہت غیر مستحکم ہے کہ وہ سیاسی پراسس اور سیاسی لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔’وہ پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنے کے لیے تیار تھے اور ان ہی پر تنقید بھی کرتے تھے اور اب بھی انھی سے بات کرنے کی بات کر رہے ہیں، ان کی حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے