تین مراحل پر مشتمل فائر بندی کی تجویز موصول، جائزہ لے رہے ہیں: حماس

2578425-israelibombartment-1702636922-632-640x480.jpg

فلسطینی گروپ حماس نے منگل کو کہا ہے کہ اسے غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی تجویز موصول ہوئی ہے اور وہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔یہ تجویز اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ اس تجویز میں تین مرحلوں پر مشتمل فائر بندی شامل ہے۔سب سے پہلے سات اکتوبر 2023 کو قیدی بنائے گئے افراد میں شامل عام اسرائیلی شہریوں کو چھوڑا جائے گا، پھر فوجیوں اور آخر میں ان قیدیوں کی لاشیں دی جائیں گی جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مارے گئے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مراحل کتنی مدت میں پورے ہوں گے۔لیکن نومبر کے آخر میں فائر بندی ختم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ فریقین کی جانب سے زیر غور ایک نئی تجویز کی تفصیلات جاری کی گئیں۔فائر بندی کی تجویز پیرس میں اسرائیل، امریکہ اور مصر کے انٹیلی جنس سربراہوں اور قطر کے وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہیں۔

مذاکرات کی سنگینی کی علامت کے طور پر حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے قاہرہ جا رہے ہیں، جو ایک ماہ سے زائد عرصے میں ان کا پہلا عوامی دورہ ہے۔تاہم اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ’مکمل فتح‘ تک غزہ سے فوجیوں کو نہ نکالنے کے اپنے عہد کا اعادہ کیا ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ وہ باقی قیدیوں کو صرف جنگ مستقل طور پر ختم کرنے کے وسیع تر معاہدے کے حصے کے طور پر رہا کرے گا۔

اسرائیل، جس کی غزہ میں جارحیت سے اب تک 26 ہزار سے زیادہ مارے گئے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑائی بند نہیں کرے گا جب تک 2007 سے غزہ پر حکمرانی کرنے والے عسکریت پسند گروپ کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔نتن یاہو پر اتحادی واشنگٹن کی جانب سے دباؤ ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کریں اور اسرائیلی حکومت کو اپنے ملک میں قیدیوں کے رشتہ داروں کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔لیکن نتن یاہو کے حکمراں اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی حمایت کرنے کے بجائے وہ اتحاد سے نکل جائیں گے۔

حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حماس کی ترجیح اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنا اور فوجیوں کا مکمل انخلا یقینی بنانا ہے۔نتن یاہو نے مغربی کنارے میں ایک اسرائیلی بستی کے دورے کے دوران کہا: ’ہم مکمل فتح سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔’اس کا مطلب ہے کہ حماس کا خاتمہ کیا جائے گا، ہم اپنے تمام قیدیوں کو واپس لائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غزہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔‘

نتن یاہو نے کہا کہ اس وقت تک اسرائیلی جیلوں سے کسی فلسطینی قیدی کو رہا نہیں کیا جائے گا۔حماس کے ایک اور سینیئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے کہا کہ نتن یاہو کے بیانات سے ’ثابت ہوتا ہے کہ وہ پیرس اجلاس کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے اور انہیں (اسرائیلی) قیدیوں کی زندگیوں کی پرواہ نہیں ہے۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے