نوجوانوں کی خوشحال کے وعدے کرنے والی سیاسی جماعتیں انھیں ٹکٹ دینے سے ہچکچاتی کیوں ہیں؟
ٹکٹ کیوں نہیں لیتے؟
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جہلم کے ایک گاؤں جمرغال سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ ڈاکٹر غلام حسین سے سنہ 1970 میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران پوچھا۔
’سر! آپ کو ووٹ بھی دوں گا اور مکمل سپورٹ بھی لیکن میں ہسپتال نہیں چھوڑ سکتا۔‘ ڈاکٹر غلام حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کو دیا جانے والا جواب بہت واضح تھا۔
اپنی سوانح عمری ’میری داستانِ جدوجہد‘ میں ڈاکٹر غلام حسین لکھتے ہیں کہ اُن کا یہ جواب سُن کر بھٹو قدرے ناراض ہوئے اور بولے کہ ’ٹھیک ہے تم ہسپتال چلاؤ۔ میں جاگیریں سنبھالتا ہوں۔ کنٹری وِل گو ٹو ڈاگز۔ کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ ذاتی ترجیحات کا وقت نہیں؟ اپنی سوانح عمری میں ڈاکٹر غلام حسین ان حالات کا خاصی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جن میں انھوں نے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ قبول کیا تھا۔یہ ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر غلام حسین کو بارہا ایم این اے کی ٹکٹ کی آفر کی گئی لیکن وہ منع کرتے رہے جس کے بعد بھٹو نے انھیں راولپنڈی کے ہوٹل پرل کانٹیننٹل میں مدعو کیا۔
آج کل کے سیاسی تناظر کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ ملاقات خاصی غیر معمولی معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر غلام حسین کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا اور سنہ 1963 میں انھوں نے کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین میں اپنا کلینک کھولا تھا۔ساتھ ہی انھوں نے 60 کی دہائی کے وسط میں جہلم میں اپنے گاؤں میں کسان کونسل کی بنیاد رکھی تھی جو آنے والے برسوں میں سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ثابت ہونے والی تھی۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ان کے پاس پیپلز پارٹی کے رہنما ٹکٹ کی آفر لے کر آئے تو ’ایک طرف کلینک کا مسئلہ تھا اور منجھے ہوئے سیاسی مخالفین اور علاقے کے قبضہ گیروں کے خلاف میرے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔‘
لیکن پھر علاقے کے ایک بااثر سیاستدان کی مبینہ ملی بھگت سے علاقے میں ہونے والی ایک چوری نے ڈاکٹر غلام حسین کو ’بغاوت کا علمِ حق بلند کرنے‘ پر مجبور کر دیا۔ چوہدری غلام حسین سنہ 70 کے الیکشن میں جہلم کے این اے 45 سے بھاری مارجن سے فتحیاب ہوئے اور 56 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔یہ صرف ڈاکٹر غلام حسین کی ہی کہانی نہیں بلکہ سنہ 1970 اور 1977 کے الیکشن میں ان کے علاوہ بھی متعدد ایسے امیدوار تھے جو الیکشن سے قبل تو عام شہری یا سیاسی کارکن تھے لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنے حلقوں میں بڑے بڑے برج الٹ دیے۔
آج لگ بھگ 54 برس بعد ایک اور الیکشن کی آمد آمد ہے لیکن چوہدری غلام حسین جیسے کسی عام نوجوان کے لیے منتخب ہونا ناممکنات میں تصور کیا جاتا ہے۔ایسے میں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ سنہ 1977 تک پاکستان میں انتخابات جیتنا ایک عام نوجوان کی رسائی میں تھا تو وہ کیا وجوہات بنیں جن کے باعث اب یہ امر پہنچ سے دور ہے اور آج ایک عام نوجوان کو الیکشن لڑنے کے لیے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
’نوجوانوں کا الیکشن‘
گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں عام انتخابات سے قبل سیاست دانوں کی جانب سے نوجوانوں کے بہتر مواقعوں اور مستقبل کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جانا تو معمول رہا ہے لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ کل ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال کی عمر کے درمیان موجود ووٹرز کی تعداد ہے۔ الیکشن کمیشن کے ستمبر 2023 تک کے اعداد و شمار کے مطابق 18 سے 35 برس کی عمر کے درمیان ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ 59 لاکھ سے زیادہ ہے جو کل تعداد کا 43.8 فیصد بنتا ہے۔اس سال تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں نوجوانوں کی بہتری کے لیے منصوبوں اور اقدامات کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے تاہم ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی جانب سے نوجوان اور نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے میں ہچکچاہٹ نظر آتی ہے۔
سنہ 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے ملک بھر میں مختلف نشستوں پر نئے چہروں کو موقع دیا گیا تھا اور جہاں اکثر کو اس دوران شکست کا سامنا کرنا پڑا وہیں کچھ حلقوں میں ایسے امیدوار فتحیاب بھی ہوئے۔ان میں سے ایک نوجوان چہرہ مراد سعید کا تھا، جنھوں نے 27 سال کی عمر میں سوات کے حلقہ این اے 29 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انھیں سنہ 2018 میں بھی سوات سے این اے فور سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔تاہم جہاں پی ٹی آئی نے سنہ 2013 میں بڑے پیمانے پر نئے چہروں اور نوجوانوں پر انحصار کیا وہیں سنہ 2018 میں اسے اقتدار میں آنے کے لیے الیکٹیبلز یعنی ایسے سیاست دان جو کئی مرتبہ انتخابات جیت چکے تھے ان ہی کا سہارا لینا پڑا۔تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں پڑھے لکھے نوجوانوں کو انتخابات میں بطور امیدوار کھڑا کرنے سے کتراتی ہیں؟
ایسا پاکستان میں کب سے ہونا شروع ہوا؟
پاکستان کے سیاسی نظام میں عام نوجوانوں کی عدم موجودگی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے مڈل کلاس سیاسی کارکنوں کے لیے سیاست میں جگہ کم ہو گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 1985 کے الیکشنز کے بعد سے نظریات کی بجائے روپیہ پیسہ شامل ہو گیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے بعد سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگ اور اب ٹریڈ یونینز بھی اس طرح سے فعال نہیں۔‘ماجد نظامی کے مطابق ’یوں نہ تو سٹوڈنٹ یونینز سے نوجوان سامنے آئے اور نہ ہی نظریات رکھنے والوں کی پاکستانی سیاست میں جگہ رہی اور سنہ 2002 کے بعد سے یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔جانب سیاسی جماعتوں کے اپنے تنظیمی ڈھانچے بھی اتنے مضبوط نہیں کہ نوجوان کارکن ایک درجے سے دوسرے درجے پر انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے آ سکیں اور یوں الیکشن دن بدن مہنگے ہوتے گئے۔
ایک عام نوجوان کو الیکشن لڑنے میں کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟
پاکستان میں اس وقت عام انتخابات سے متعلق ہم نے قائداعظم یونیورسٹی کے متعدد طلبا سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اگر وہ الیکشن لڑیں تو جیت نہیں سکیں گے۔اس پر اکثر طلبا کا یہ ماننا تھا کہ کیونکہ نہ تو وہ اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی امیر ہیں اس لیے وہ الیکشن لڑیں بھی تو ہار جائیں گے۔
ہم نے اس حوالے سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ 160 لاہور سے امیدوار عمار علی جان اور سندھ کی صوبائی اسمبلی کے حقلہ 110 کراچی سے جبران ناصر سے تفصیل سے بات کی ہے۔عمار علی جان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن مہم کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کو اصل میں گراؤنڈ پر انفراسٹرکچر کتنا بڑا ملتا ہے۔
’انفراسٹرکچر سے یہاں مراد جان پہچان، نظریاتی کارکن، دفاتر اور بیورکریسی میں تعلقات ہیں۔عمار کے مطابق اس کے بعد ایک بہت بڑا چیلنج رقم جمع کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے جو قانون بنایا ہوا ہے اس میں کوئی بھی نہیں کھیلتا، یہ کروڑوں کی گیم ہو چکی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس سب کو عبور کرنے کے بعد آخری مرحلہ ہوتا ہے ریاست۔ اگر وہ چاہے تو وہ بڑی جماعتوں کے امیدواروں کو کبھی بھی بے معنی کر سکتی ہے، تو وہ بھی خوف ہوتا ہے کہ تھانے اور ایجنسیوں کو کیسے ہینڈل کریں۔
’یہ تین چار چیزیں مل کر ایک انتہائی مشکل صورتحال بن جاتی ہے اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ یہ کسی شریف بندے یا پڑھے لکھے بندے کا کام ہی نہیں۔خیال رہے کہ دنیا بھر کے ایسے ممالک جہاں جمہوری نظام مضبوط ہے وہاں جہاں بھی نئی لیڈرشپ آ رہی ہے وہ طلبا یونین، ٹریڈ یونین، کسان کمیٹیوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تنظیموں سے آتی ہے تاہم پاکستان میں یہ نظام کئی دہائیوں سے تقریباً غیر فعال ہے۔
عمار کہتے ہیں کہ ’اگر ہم انتظار کرتے رہیں گے کہ پہلے اصلاحات ہوں گی اور طلبا یونینز اور ٹریڈ یونینز بنیں گی اس کے بعد ہم آئیں گے تو ہمیں 40 سال ہو گئے ہیں اس کا انتظار کرتے ہوئے مزید 40 سال بعد بھی شاید کچھ نہ ہو۔ تو ہمیں خود اصلاحات کرنے والا بننا ہے۔طلبا اور ٹریڈ یونین جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں اور اگر ہم انھیں نہیں بنائیں گے تو پھر جمہوریت پر قبضہ رہے گا اور جو ابھی چل رہا ہے وہی معاملات رہیں گے۔‘
جبران ناصر اس سے قبل سنہ 2013 اور 2018 میں بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔ انھوں نے نے کہا کہ ’سیاست تعارف کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر لوگ آپ کو پہچانتے ہیں اور پھر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دن آپ اٹھیں اور سوچیں کہ آپ نے الیکشن لڑنا ہے اور لوگ آپ کو ووٹ دے کر جتوا دیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’آپ الیکشن لڑنے سے پہلے اپنا تعارف بناتے ہو۔ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، آپ نے اپنے حلقے میں فلاحی کام کروائے ہوں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو آپ کو پیسے کا درپیش آتا ہے۔‘جبران ناصر کی جانب سے اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا تھا کہ انھوں نے گذشتہ الیکشنز میں عوام سے رقم جمع کر کے مہم چلائی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آبادی بڑھنے کے بعد آج کل حلقے اتنے بڑے ہو چکے ہیں لیکن سیٹیں نہیں بڑھائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک صوبائی اسمبلی کا حقلہ قومی اسمبلی کے قریب جا پہنچا ہے اور ایک حلقے میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔ایسے میں الیکشن ویسے ہی کسی عام پاکستانی کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ کے لیے ووٹرز تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔‘جبران ناصر کہتے ہیں کہ اس کے لیے نچلی سطح سے شروع کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بلدیاتی انتخابات اور یونین کونسل کے الیکشن سے شروع کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد آہستہ جب لوگ آپ کو جاننے لگیں تو آپ صوبائی اور قومی اسمبلی کی جانب دیکھ سکتے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی چیئرپرسن مسرت قدیم کہتی ہیں کہ ہر سیاسی جماعت جیتنے والے امیدواروں کو چنتی ہے۔اس لیے کسی بھی نوجوان امیدوار کو ٹکٹ ملنا دشوار ہوتا ہے اگر وہ اشرافیہ میں کسی بھی رہنما کی اولادوں میں سے نہ ہو۔ ورنہ اس کو اپنی جماعت میں جگہ بنانی پڑے گی اور پھر اپنے حلقے میں بھی جگہ بنانی پڑتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی گرومنگ کی جگہ ہونا چاہیے اور یہاں ایک نسل دوسری نسل کو سکھائے، لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔‘
اس مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے متعدد وکلا کو ٹکٹ دیے گئے ہیں جن میں ندیم حیدر پنجوتھا بھی شامل ہیں۔ انھیں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پی پی 71 سرگودھا سے ٹکٹ دیا گیا، جہاں سے وہ آزاد حیثیت میں پیالے کے نشان کے ساتھ الیکشن لڑیں گے۔انھوں نے کہا کہ ’آپ کو عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ دینا ہو گا کہ اس سے پہلے بھی اور اب بھی انھوں نے میرے جیسے کارکنوں اور ورکرز کو ٹکٹ دیے ہیں۔ جو ہمیں دوسری جماعتوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ سے اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں میں ٹکٹوں کی تقسیم ہوتی رہی لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔‘ان کا بطور امیدوار خود کو پیش آنے والے چیلنجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی خاص چیلنج نہیں ملا، لوگ خود آ کر حمایت کا اعلان کر رہے ہیں، مجھے اپنے پاس بلا رہے ہیں۔ آٹھ فروری کو یہاں فتح پی ٹی آئی کی ہو گی۔‘
محنتی نوجوانوں کو سیاسی خاندانوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے
یہی بات ہم نے سیدہ نوشین افتخار سے جاننے کی کوشش کی جو اس مرتبہ بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ڈسکہ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ان کے والد سید افتخار الحسن اس سے قبل سنہ 90 کی دہائی سے الیکشن لڑتے رہے تھے اور ان کا تعلق ڈسکہ کے ایک مذہبی خاندان سے ہے۔الیکشن میں پیسے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’فنانشل پوزیشن مضبوط ہونا اہم ہے۔آپ نے ریلیاں اور جلسے بھی کرنے ہیں، پیٹرول بھی ڈلوانا ہے، روزانہ کے اخراجات بھی بھرنے ہیں، اپنے دفاتر میں آنے والے ووٹرز کی خاطر تواضع بھی کرنی ہے۔ تو ظاہر ہے آپ کو خرچہ کرنا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ن لیگ کی جانب سے اس مرتبہ ’نوجوان، پڑھے لکھے، پیسے والے اور محنت کرنے والے لوگوں کو یوتھ کوارڈینیٹر بنایا گیا ہے۔تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ ’اس طرح کے لوگ جو محنتی ہوتے ہیں وہ آگے ضرور آتے ہیں لیکن انھیں موروثی سیاسی خاندانوں کی نسبت محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔نوشین کو خود بھی ڈسکہ میں پہلی مرتبہ 2021 میں الیکشن لڑتے ہوئے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ الیکشن خاصے متنازع ہو گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’اس ثقافت، اس نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو لوگوں کا جمہوریت سے اعتبار اٹھ جائے گا۔‘