فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق: وسعت اللہ خان کا کالم
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔
فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔
فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔
دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔
ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔
ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ، زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو ، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔
مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘
جب کسی فرد ، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔
چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔