بلوچستان کی ابابیلیں”کالم نگار طیبہ ژویک”
دھند بھری صبح ہے ۔ ۔ میں کافی پھینٹ رہی ہوں بڑے بھائی کے لیے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب شیف بھیّا میرے ہاتھ کی بنی کافی لیتے ہیں ۔ خود ان کے پاس اپنے لیے وقت ہی نہیں ہوتا ۔ یہ بھائی بھی نا۔ ۔ ایسے ہی تو بہنوں کو اتنے پیارے نہیں ہوتے ۔ تبھی تو اتنے برف زدہ سے دِنوں میں ،دور دراز علاقوں سے چل کر آئی کچھ لڑکیاں ، کچھ بچیاں ، چند عورتیں اپنے بھائی، باپ، شوہر یا بیٹے کی بازیابی کی آس لیے سنگ دل شہر کی سڑکوں پر اللہ کے آسرے پڑی رہیں ۔
وہ خواتین جنہوں نے کبھی اپنے گاؤں سے باہر کا راستہ تک نہ دیکھا ہو ۔ انہیں “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے پاکباز حکام اور دُنیا کی نمبر ون ایجنسیوں نے ایسی ٹریننگ دی ہے کہ وہ بلوچستان سے پیدل چلتی ہوئیں اس شہر تک آن پہنچی اور جن بیٹیوں کی آمد پر حضورﷺ چادر بچھا دیا کرتے تھے ،ان کے لیے ہمارے شہرِ سلطان سے کیا نکلا؟ ؟ کچھ ہتھیار ۔ ۔ جن کا استعمال الیکشن کے دِنوں میں واجب نہ تھا؟ کچھ فورسز جو کھلم کھلا درندگی نہیں دکھا سکتی تھیں کیونکہ یہ معاملہ ریاست کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے بھی تھا ۔ کچھ تہمتیں، بلکہ کچھ نہیں بہت زیادہ اور بےتحاشا تہمتیں ۔ ۔میرے وطنِ عزیز کا ایک چلن یہ بھی تو ہے کہ عورت کو روکنے کا بہترین طریقہ اس کی عزت پر وار کرو ۔ سو ہر ایک نے حسبِ استطاعت کیا ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا مذاق بناتے ، انہیں پیچھے بیٹھی کہیں دہائیوں سے بیٹوں کی راہ تکتی بوڑھی آنکھیں نظر نہ آئیں۔ ۔ اور معصوم بچیوں کی باپ کے انتظار پر لگی نظریں بھی ان سنگدلوں کو گھٹیا مذاق اور طنز و تشنیع سے نہ روک سکیں۔
ماہ رنگ بلوچ کے متعلق جہاں سوشل میڈیا ٹرینڈ میں یہ چیز دیکھنے کو ملی کہ یہ پیسوں کے لیے کر رہی ہیں۔۔وہیں کسی نے غدار ، کسی نے مکار اور کسی نے شہرت کا بھوکا قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ۔ بی بی سی کے کالم میں ایک صحافی نے لکھا تھا ” پاکستان کا کوئی بھی صحافی جو کبھی کراچی ، کوئٹہ یا اسلام آباد پریس کلب سے گزرا ہے وہ جانتا ہے کہ ماہ رنگ اور سمی بچپن سے ہی احتجاجی کیپموں میں بیٹھی ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئی ہیں اور لیڈر بنی ہیں، اب اپنے پیارے ہلاک اور گمشدہ بھائیو ں کے لیے آواز اُٹھانے اسلام آباد پہنچی ہیں”۔ شاید یہ لفظ “لیڈر” ہمارے نکمے نوجوانوں کے سینوں کو چھلنی کر گیا ۔ پر ، کیا میں، آپ یا ہم میں سے کوئی بھی ایسی لیڈرشِپ یا شہرت لینا چاہے گا جس کا متبادل آپ کے گھر کے پیارے اور آپ کے سہارے ہوں ؟ ؟
سوشل میڈیا نے جہاں آگہی بخشی ہے وہاں یہ ستم بھی ہوا ہے کہ یہاں نیم حکیموں نے اندھیر مچا رکھا ہے ۔ جعلی آئی ڈیز بناتے ، فیک فالورز خریدتے ، اپنی فرسٹریشن ، جہالت کو گالم گلوچ کی زبان میں سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہوئے اُنہیں کیا فکر ہے کہ اُن کے فقط دو جملوں اور 50 لائکس سے کسی کی زندگی بھر کی آس ٹوٹتی ہے ۔ کچھ بھرم ٹوٹتے ہیں ۔ کچھ ریاست کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
ان منقسم رویوں نے جہاں بلوچوں کے دلوں میں مزید زہر بھرا ، وہیں دوسرے صوبوں کی بے حسی بھی اُبھر کر سامنے آئی۔ جس چیز کو عالمی میڈیا ہائی لائٹ کر رہا ہے ، وہ ہمارے بِکے ہوئے اخباروں میں دو لائن کی خبر تک نہ بن سکی ۔ جہاں سیاست دانوں کی چھینکوں اور چھلانگوں پر کالم لکھے جا رہے ہیں ۔ جہاں اداکاروں کے حُسن کے جلوے بکھیرنے کے لیے پورا صفحہ حاضر ہے ۔ وہاں بلوچستان کی کمزور سی آواز کے لیے اخبار کے پاس دو اِنچ کی جگہ تک کا نہ ہونا ریاستی بےحسی کے ساتھ ساتھ ریاست کے چوتھے ستون کی ترجیحات کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔
اور مرے پر سو درّے، اگر کوئی صحافی گردن میں سریا ڈالے پہنچ بھی گیا تو ان بہنوں سے وہاں پہنچ کر فرمائش کی “بہن جی ہمارے جو پنجابی وہاں قتل ہوئے تھے، ذرا ان کا ماتم تو کر دیجیے” کیا اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات بھی کوئی ہو سکتی ہے ؟؟ وہ لڑکیاں جو اپنے پیاروں کی تصویریں اُٹھائے دربدر ہیں ، آپ اُن سے ریاست کی ناکامی کی جواب طلبی کے لیے پہنچ جائیں ۔ کیا یہ بلوچوں کا گناہ ہے یا ریاست کی ناکامی؟ جو بلوچوں کو گم شدہ ہونے سے نہ بچا سکیں ۔ یا اپنی تسلی کے لیے کہہ لیجیے کہ دہشت گرد بننے سے نہ بچا سکیں ۔ جو کوئٹہ میں سردی میں تقریبا ًہر سال لاشوں کا میلہ لگتا ہے اس کی وضاحت تو کیا آج تک کسی کے پاس جواب یا تسلی تک نہ ہوئی، وہ ہر سال روتے ہیں پیٹتے ہیں اور پھر خود ہی اُٹھ جاتے ہیں، جنہیں اپنے باپ بھائیوں کا نہیں پتہ ۔ اگر پتہ ملتا بھی ہے تو مسخ شدہ زندگی سے عاری جسم کی صورت میں ۔ ۔ ۔ آپ ان سے پنجابیوں کے قتل کی مذمت کس مُنہ سے مانگنے جاتے ہیں ؟؟
ثناء جاوید، شعیب ملک ، الیکشن ، بلّے ، تِیر ،شیر اور گیدڑ کی چیختی چلاتی بریکنگ نیوز کے شوقین لوگ حقائق کو بہت جلد بھول جاتے ہیں یا بُھلا دینا چاہتے ہیں ۔ ۔ورنہ اگر آپ سب کی تسلی کے لیے فرض کربھی لیا کہ بلوچستان میں امن ہے، دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، اپنے جانباز بھائی وہاں دن رات ان کی عزتوں کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ، سمی بلوچ یا ماہ رنگ بلوچ سرپھری سی لڑکیاں ہیں انہیں شہرت کی طلب ہے ۔۔ تب بھی،ایک بار کچھ غیرملکی اخبار کھنگالیے، گوگل کا سہارا لیجیے، کچھ بہت دور نہیں تو پانچ دس سال پیچھے چلے جائیے۔ آپ کو جان کر حیرت ہو کہ انہی لڑکیوں نے بینرز اُٹھانے سے پہلے بلوچی بچوں کے جنازے بھی اپنے ہاتھوں سے اُٹھائے ہیں اور وہ بچے یا اُن کے والدین جان کی قیمت پر شہرت کے طلب گار ہر گِز نہ تھے۔
آپ کے لیے گھِسی پٹی سی “بریکنگ نیوز” ہو گی کہ شہرت کی بھوکی اِن بلوچی لڑکیوں کے ساتھ بچپن میں کچھ لڑکے بھی احتجاجی کیمپوں میں بیٹھا کرتے تھے وہ بھی بڑے ہو کر لاپتہ ہوگئے ،اُن میں ایک علی حیدر بلوچ بھی تھا جس نے دس سال کی عمر ( جس عمر کے بچے کو آپ اکیلے گھر سے دو گلیاں دور بھیجنے سے ڈرتے ہیں) میں کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک مارچ میں حصہ لیا،اپنے باپ کے ملنے کی آس پر ۔ پھر وہ خود بھی لاپتہ ہوا اور بازیاب ہونے کے بعد اپنی زبان بندی پر مجبور ہوا۔ ۔
آپ انٹرنیٹ پر “حیات بلوچ” نام سرچ کریں ۔ ایک افسانوی کہانی ملے گی ۔ ایک لڑکا حیات بلوچ ہوا کرتا تھا۔ اپنے خاندان کا واحد لڑکا جو یونیورسٹی لیول تک پہنچا ۔ والدین نے شاید اس کی زندگی کی آس میں اُس کا نام ہی “حیات ” رکھ دیا تھا۔ وہ بچہ کسی ایرانی غار یا کسی غدار پارٹی کے مورچے سے نہیں ملا تھا۔۔ بلکہ اُس بچے کو والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کو وہاں سے اُٹھا کر سڑک پر لا کر بڑے اہتمام سے گولی ماردی گئی تھی ۔ (حیات شاید بلوچوں کی قسمت میں ہی نہیں ہے)۔اس کا کچی سڑک پر بکھرا ہوا بےجان جسم اور اُس پر آہ و بکا کرتی ماں کے آنسو سوشل میڈیا کے ہونہار سپوتوں کو نظر بھی آئے تھے ۔ بہت وائرل بھی ہوئے تھے اور ہم تو اُسی چیز کو اہمیت دیتے ہیں جو مشہور ہو۔ ہوٹل یا کسی قہوے خانے میں بیٹھے آپ کا گداز دل بھی بھر آیا ہو گا ۔ ۔۔ وہ بالکل ایسا ہی منظر تھا نا، آرٹ کا شاہکار اور دُکھ بھی ایسا جو صرف کسی شاعری میں بیان ہوتا ہے ۔ ۔یا کسی رُلا دینے والی کہانی یا فلم میں نظر آتا ہے ، تو ایسے حقیقی منظر سے دل بھر آنا تو فطری تھا نا ۔ ۔
ذرا اپنی سوشل میڈیا کی جنت سے نکل کر حقیقت کھنگالنے تو بیٹھیں، شاید آپ کو واحد بلوچ کا لاپتہ ہونا یاد آجائے ۔ جو بلوچوں میں کتاب کلچر پھیلانے کا جُرم کرتے ہیں ، شاید آپ کو 4 بھائیوں کی خبر نظر آجائے ۔ جن میں دو بھائیوں کی تشدد زدہ لاشیں ملیں تھیں، تیسرا ثاقب کریم ماں باپ نے باہر بھجوایا تھا اور وہاں بھی مارا گیا تھا (مسلم ہیں ہم وطن ہیں ،سارا جہاں ہمارا) اب صرف ایک بھائی باقی ہے جو شاید اپنے لاپتہ ہونے کے انتظار میں ہے ۔
فرزانہ مجید سے تو پوچھیے اُسے بھائی چاہیے یا شہرت ۔ شاید آپ کوبالاچ بلوچ یا جہاں زیب بلوچ کی کہانی کہیں مل جائے ۔ جس کی ماں ان کے انتظار میں شہر در شہر تصویر اٹھائے ڈھونڈتی ہوئی مر گئی۔ اُس کی پانچ سالہ بیٹی شاید اب جوان ہو گئی ہو۔ ۔ کسی احتجاجی کیمپ میں شہرت اور پیسوں کی آس لیے بیٹھی ہو ۔
ایک بچی کا تو شہرت کا مقصد پورا ہو بھی گیا تھا، جب اُس کا کلپ وائرل ہوا جس میں وہ کہہ رہی تھی ہمیں ہماری زمین سے ملنے والی گیس اور دیگر معدنیات نہ دو ،ہمیں سہولتیں بھی نہ دو، ہمیں کچھ مت دو بس ہمارے پیارے ہمیں واپس کر دو ۔
کور چشمی کہ نگاہی بہ رُخِ غم نکند
تیرہ قلبی کہ در آں درد فروزاں نبود
(وہ آنکھ اندھی ہے جسے غم دکھائی نہ دے، وہ دل تاریک ہے جس میں درد فروزاں نہیں ہوتا)
نرم گرم کمبلوں میں گُھس کر ان خواتین کے لیے حقارت بھرے سٹیٹس لکھنے والے ہمارے دانشور اور ان کی حکایتوں پر سر دھننے والے زحمت ہی نہیں کرتے کہ دیکھیں تو سہی بلوچوں کی تاریخ کیا ہے۔ کیوں ہر سال میں ایک دو بار یہ تماشا لگتا ہے ، کبھی ڈھونڈ کر تو دیکھیں ،کسی قومی اخبار میں موجودہ تو کیا آرکائیو میں بھی کچھ نہ ملے (اور ملے بھی گا بھی نہیں کیونکہ بلوچستان کے اخبار آپ کو جانبدار لگیں گے اور اس خطہ سے باہر یہ شجر ممنوعہ ہے ۔ اس پر بات کرنے سے ہماری تتلی جیسی نازک ریاست کی عزت پر حرف آنے لگتا ہے) اس لیے اگر ہمت ہے تو خود اُس بلوچستان کا سفر کیجیے جہاں صحافت بھی گزرنے سے ڈرتی ہے ۔ جس کے متعلق لکھنا، بات کرنا، یاد دہانی کروانا ، یا توجہ دلوانے کی سزا گمشدگی یا موت ہے ۔
یا پھر بین الاقوامی سطح کے اخبار کھنگالیے اور بلوچستان کی قسمت کا ماتم کیجیے ۔ جس سے ریاست ماں کھلم کھلا سوتیلے بیٹے جیسا سلوک کرتی ہے۔ ۔آپ جان پائیں گے یہ داستانِ ظلم شروع کہاں سے ہوئی اور کیوں ہوئی۔ بلوچستان کی سرزمین کربلا سی کیسے بنی۔ ۔ کب اور کِن صاحب نے ٹوکرے بھر بھر کے اپنے وطن کے جوان دوسرے ملکوں کو دان کیے کہ “تم نے کہا دہشت گرد ہے، ہم نے مان لیا، آپ ہمارے مائی باپ، آپ سے کیا گلہ شکوہ ” ہمیں چند ٹکے دیجیے اور جتنے چاہے جوان لیجیے ۔ ہماری آبادی ویسے بھی بہت زیادہ ہے ۔ اُن خاندانوں سے پوچھیے جن کی بیٹیاں آپ کو شہرت کی طلبگار نظر آتی ہیں ۔ ہر لڑکی، ہر بچی کے پیچھے پوری ایک داستان ملے گی ۔ ۔ کہیں مسخ شدہ لاشوں کی اور کہیں گمشدہ مردوں کی ۔ ۔ اور گمشدہ یا مرنے والوں کی ٹوٹی پھوٹی زبانی کلامی حقیقت کسی نا کسی حد تک عیاں ہو ہی جائے گی ۔ آپ قابلِ توجہ نہ سمجھیں وہ الگ بات ہے ۔
اگر کبھی آپ کو قدیر بلوچ کے “ماما قدیر بلوچ” بننے کی داستان پڑھنے کو ملے ۔ تو شاید آپ جان پائیں وہ چچا یا تایا بننے کی بجائے اس قوم کا ماما کیوں بنا یا بنا دیا گیا۔
اگر کبھی آپ کو گلزار بلوچ کے پاؤں کے آبلے دیکھنے کا اتفاق ہو۔۔ ۔ یا کسی انٹرنیشنل فورم پر اس کے مطالبات نظر آئیں تو آپ کو بلوچوں اور سندھیوں کے گناہ بھی سمجھ آجائیں گے ،اُن کی گمشدگیاں بھی۔ اُن کی تنظیمیں بننے کا مقصد بھی اور پھر اس مقصد کو ہائی جیک کرنے والے بھی۔
یہ چند ایک کردار ہیں جو اس پچیس تیس سالہ جدوجہد کی اَن گنت کہانیوں سے اٹھائے گئے ہیں ۔۔ جنہیں آپ ” شہرت کا سٹنٹ” اور “غدار” کہہ کر سکرول کر جاتے ہیں ۔ ۔
ان کی سونے جیسی معدنیات اگلتی زمینیں اور ریاست کا سردرد ان کے باشعور جوان بھی، جن کا بچپن ماں کی نرم گرم آغوش کی بجائے احتجاجی کیمپوں میں یا گمشدہ ہونے میں گزرتا ہے ۔ ان جوانوں کے رُلتے رہنے میں ہمارے نام نہاد “حکام کی بھلائی” ہے ۔ وہ ریاست کے پسندیدہ لوگ تھوڑی نا۔۔ ۔ بلکہ ریاست کو تو وہ لوگ چا ہئیں ۔ جنہیں اماں کی گود سے اترتے ہی سمارٹ فون مل جاتا ہے ۔ ۔ اور پھر وہ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ کی عملی تصویر بن کر”عقل بند” دانشور بنتے ہیں ۔۔ ویسے تو ریاست کو ہر سوچ رکھنے والا ہی زہر لگتا ہے ۔ پر اگر وہ سوچنے والا ذہن کسی بلوچی کا ہو تو ریاستی نقطہ نظر کے “نیشنل ایکشن پلان ” کے تحت وہ شدت پسند ہے ۔ اس ذہن اُس سوچ کو کہیں بھی ترویج نہیں ملنی چاہیے ۔
ریاست ماں جیسی کے ذمہ لوگوں کا تحفظ ہوتا ہے ۔ جب ماں ہی ڈائن کی طرح اپنے بچے کھانے لگ جائے تو فردِ واحد کس سے فریاد کرے گا ؟ ؟ جب آپ کے باپ، بیٹے ، شوہر یا بھائی ہی اُٹھا لیے جائیں جو آپ کے جینے کی وجہ ہیں ۔ تو بتائیے ایک شہری کیونکر اُس ریاست سے محبت کرے ؟ ؟ (ریاست خود اعتراف کرتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف “چند لوگوں” کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، اور تفتیش کے بعد بےقصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے، البتہ یہ ریاست خاموش ہے کہ یہ اصول و ضوابط کون طے کرتا ہے ۔ ۔ اس کے نزدیک “امن و امان” کیا ہے، بے قصور کس بنیاد پر ٹھہرایا جاتا ہے اور قصور وار کہاں جاتے ہیں)
دو دن ہوئے بلوچی بہنوں کی روتے اور اپنے پیاروں کی تصویریں اتارتے ہوئے دیکھ کر دل خاموش ہے ۔ بولے بھی تو کیا؟ اس بار اُن کے عوامی ساتھ کے بھرم جو ٹوٹے سو ٹوٹے ، اُلٹا رسوائیوں کے طوق گلے میں الگ سے ڈالے گئے ۔ ساتھ دینا تو دور کی بات انہیں یہاں سے اُٹھانے والے بھی وہ لوگ ہیں جن کے لیے عمران خان کا 126 دن کا دھرنا کچھ نہیں تھا۔ جو ٹی ایل پی کا جلوس دیکھتے ہی لبیک کہہ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ، جن کو ہر تیسرے دن کسی سیاسی سرکس کے لانگ مارچ سے ہونے والے نقصان سے فرق نہیں پڑتا، جنہیں کسی احتجاجی جلسے کو روکنے کے لیے سڑک توڑ کر خندقیں بنانے سے فرق نہیں پڑا تھا ، انہیں چند خواتین کے اسلام آباد میں بیٹھنے سے کروڑوں اربوں کا نقصان ہونے لگا گویا عالمی تجارتی راہ داری نیشنل پریس کلب سے ہو کر ہی تو گزرتی ہے ۔
اس شہر کے لوگ رحمت کو ترسنے چاہئیں
اس شہر پر آگ اور پتھر برسنے چاہئیں
اُن محترم ماؤں بہنوں کی شہر سے روانگی کے ساتھ ہی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ۔ ۔ جیسا کہ ہمارے ہاں عموماً سمجھا جاتا ہے اور سُکھ کا سانس لیا جاتا ہے ۔ اس کو ٹرینڈنگ نیوز سمجھنے کی بجائے اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھیے ۔ بلوچوں کو ٹرول کرنے کی بجائے اپنائیت کا احساس دلائیے ۔
آپ کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جانے سے اٗن کے مرد انہیں واپس نہیں مل جائیں گے۔ لہذا ان کے درد کو اپنا سمجھیے