سائفر کیس: ایک مقدمہ، تین اہم گواہ اور وکیل صفائی کا مؤقف ’عمران خان وزیراعظم تھے، کلرک نہیں‘
بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر گمشدگی کیس میں تین اہم گواہوں کی جانب سے خصوصی عدالت کے روبرو بیانات ریکارڈ کروائے جانے کے بعد یہ مقدمہ اب فیصلہ کُن مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔
ان تین اہم گواہان میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزیر خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید شامل ہیں۔
ان تینوں کی جانب سے ریکارڈ کروائے گئے بیانات کو استغاثہ کی جانب سے اہمیت دی جا رہی ہے اور پراسیکوشن کا دعویٰ ہے کہ یہ بیانات اس کیس کے مرکزی ملزمان (عمران خان اور شاہ محمود قریشی) کو مجرم ثابت کرنے میں معاون ہوں گے جبکہ دوسری جانب ملزمان کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ ان بیانات میں کچھ ایسا نہیں جو اُن کے موکلین کے خلاف جاتا ہو۔
سائفر کیس میں اب تک ہونے والی پیش رفت کے مطابق اس مقدمے میں پراسیکوشن کے 25 گواہان کے بیانات خصوصی عدالت میں ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ اس مقدمے میں مجموعی طور پر 28 گواہان تھے جن میں سے تین گواہوں کو عدالت میں پراسکیوشن کی جانب سے پیش ہی نہیں کیا گیا
مزید آگے بڑھنے سے قبل عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے بیانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
’سائفر کی کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھ لی جو بعد میں نہ ملی‘: سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان
سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر کے معاملے میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے ٹیلی فون کر کے سائفر ٹیلی گرام کے متعلق بتایا تھا۔
عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی سائفر کے معاملے میں اُن سے بات کرنے سے پہلے اس وقت کے وزیر اعظم یعنی عمران خان سے پہلے ہی بات کر چکے تھے جس کی تصدیق عمران خان نے بھی کی تھی۔
اعظم خان کا کہنا تھا کہ مارچ 2022 کو اُن کے آفس کے سٹاف نے انھیں سائفر کی کاپی فراہم کی جو انھوں نے اگلے ہی روز سابق وزیر اعظم عمران خان کو دے دی۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر کے معاملہ پر عوام کو اعتماد میں لینے کی بات کی جبکہ انھوں (اعظم خان) نے بطور پرنسپل سیکرٹری اس معاملے پر وزارت خارجہ سے باقاعدہ میٹنگ کا مشورہ دیا تھا۔
اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے اعظم خان نے مزید کہا کہ عمران خان کی رائے تھی کہ امریکی حکام نے سائفر بھیج کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ اعظم خان کے بقول عمران خان نے کہا کہ یہ میسج اندرونی ایکٹرز کے لیے ہے کہ اپوزیشن منتخب حکومت کو تبدیل کرے اور ہمارے (تحریک انصاف) خلاف عدم اعتماد لائی جائے۔
اعظم خان نے عدالت کو دیے گئے بیان میں کہا کہ اس کے بعد سائفر کی کاپی وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھ لی جو بعد میں نہ ملی اور بعدازاں عمران خان نےاپنے ملٹری سیکریٹری، اے ڈی سی اور دیگر سٹاف کو معاملہ کو دیکھنے کا کہا لیکن سائفر کی کاپی عمران خان کے وزارت عظمیٰ سے ہٹنے تک نہیں ملی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے عملے نے بھی سائفر کی کاپی نہ ملنے کی تصدیق کی۔
اعظم خان کا کہنا تھا کہ اُن کے چارج چھوڑنے تک سائفر کی کاپی واپس نہیں بھجوائی گئی تھی جبکہ روایت کے مطابق سائفر کی کاپی واپس وزارت خارجہ کو بھجوائی جاتی ہے۔
اعظم خان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایک اجلاس عمران خان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ پر بھی ہوا جس میں اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ نے سائفر پڑھ کر سنایا اور بنی گالہ میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ سائفر معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے اور پھر وفاقی کابینہ میٹنگ میں معاملہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ ہوا۔
وزیر اعظم کے سابق سیکریٹری نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ متعلقہ ملک (امریکہ) کو اندرونی معاملے میں مداخلت پر ڈی مارش جاری کیا جائے۔
’امریکی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا‘: سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود
سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ 2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید سے ان کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور سفیر نے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ و سنٹرل ایشیا سے ہونے والی ملاقات کی بابت انھیں آگاہ کیا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس ملاقات میں سفیر کے ساتھ ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے۔ سابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے انھیں اس معاملہ کی حساسیت سے متعلق بتایا اور کہا کہ سفیر کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے متعلق انھوں نے وزارت خارجہ کو سائفر ٹیلی گرام بھجوایا ہے۔
سہیل محمود نے عدالت کو بیان دیا کہ انھوں نے بطور سیکریٹری خارجہ اپنے دفتر جا کر سائفر ٹیلی گرام کی کاپی وصول کی اور اس سائفر ٹیلی گرام کو ’کیٹاگرائز‘ کیا اور احکامات دیے کہ اس کی سرکولیشن نہیں کرنی بلکہ یہ صرف سیکریٹری خارجہ کے لیے ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی ہدایات کے ساتھ سائفر ٹیلی گرام کی کاپی کی تقسیم کی منظوری دی گئی اور سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سربمہر لفافے میں بھجوانے کی ہدایت کی گئی۔
سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 27 مارچ 2022 کو ہونے والے جلسے میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا اور اس کے اگلے روز انھیں (سہیل محمود) ایڈیشنل سیکریٹری امریکہ کی جانب سے انٹرنل نوٹ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ (عوامی جلسے میں دیے گئے بیان) پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سہیل محمود کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس نوٹ کو اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھیجتے ہوئے مشورہ دیا کہ امریکہ سے منسلک رہنا سمجھداری ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اس مشورے کا مقصد اہم ملک (امریکہ) کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا تحفظ اور سیکرٹ کمیونیکیشن کی عوامی سطح پر بحث سے گریز کرنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ 29 مارچ 2022 کو عمران خان نے انھیں ملاقات کے لیے بنی گالہ بلایا۔ یہ پہلے سے طے شدہ میٹنگ نہیں تھی بلکہ مختصر نوٹس پر بلائی گئی تھی اور اس میٹنگ میں سابق وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان بھی موجود تھے۔
سابق سیکریٹری خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ انھیں میٹنگ کے دوران سائفرٹیلی گرام پڑھنے کا کہا گیا اور سائفر پڑھنے کے دوران شرکا نے یو ایس اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اور واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اپنے اپنے کمنٹس دیے۔
انھوں نے کہا کہ بنی گالہ ہونےو الی میٹنگ مختصر تھی جو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی اور وہ سائفر ٹیلی گرام کی کاپی اپنے ساتھ لے گیے اور جو سائفر محفوظ رکھنے کے لیے ڈائریکٹر ایف ایس او کے حوالے کر دی گئی۔
انھوں نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے مزید کہا کہ 8 اپریل 2022 کو کابینہ میٹنگ ہوئی جس میں سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری قانون و انصاف اور وہ بطور سیکریٹری خارجہ موجود تھےاور اس میٹنگ انھیں بھی اپنے خیالات شیئر کرنےکا کہا گیا اور اس اجلاس میں انھوں نے اپنی بریفنگ میں سائفر ٹیلی گرام کی ڈی کلاسیفیکیشن، سائفر سکیورٹی گائیڈ لائنز، قانونی پوزیشن اور خارجہ پالیسی کے مضمرات کے حوالہ سے بریف کیا۔
سہیل محمود نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مزید کہا کہ انھوں نے بتایا کہ سائفر سکیورٹی گائیڈ لائنز سائفر ٹیلی گرام کو صرف مجاز افراد کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ سائفر کی ڈی کلاسیفیکیشن سے سفارتی مشن کے کام پر اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ اس سے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ میٹنگ کے بعد فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں سائفر کی صداقت اور نمایاں خصوصیات کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔