اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ: عالمی عدالت انصاف آج فیصلہ سنائے گی

335931-2110216363.jpeg

نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دائر فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر ایمرجنسی اقدامات پر فیصلہ آج (بروز جمعہ) سنائے گی۔

بدھ کو عالمی عدالت انصاف کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس میں ایمرجنسی اقدامات کا حکم جاری کرنے کے حوالے سے فیصلہ 26 جنوری کو سنایا جائے گا۔غزہ پر کئی ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز 11 جنوری کو ہوا تھا۔

ابتدائی سماعت میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا، جس کے دوران اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت دو روز تک جاری رہی، جس کے دوسرے دن اسرائیل کو بھی دفاع کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔

اسرائیل نے خلاف نسل کشی کے مقدمے کو ’انتہائی مسخ شدہ‘ اور ’بدخواہی‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔دوسری جانب اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ نے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا اور عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم ظاہر کیا۔

کیس سے جڑے کچھ اہم سوالات

اس مرحلے پر عالمی عدالت انصاف صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ طریقہ کار کے دوسرے مرحلے کے لیے ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کی لیکچرر جولیٹ میکانٹائر نے  بتایا کہ اس مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ اگر عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔‘
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔عدالت تمام نو احکامات کا حکم دے سکتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کر سکتی ہے۔لیڈن یونیورسٹی میں عوامی بین الاقوامی قانون کی اسسٹنٹ پروفیسر سیسلی روز نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ عدالت جنوبی افریقہ کی طرف سے استدعا کی گئیں کچھ درخواستوں کو منظور کر لے گی۔ اسرائیل نے سماعتوں کے دوران دلیل دی کہ جنگ بندی غیر حقیقی ہے کیونکہ عدالت صرف ایک فریق کو حکم دے سکتی ہے جیسا کہ حماس اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے۔‘

ایک اور ماہر قانون میک انٹائر نے کہا: ’عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن میری رائے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سے ایسے اقدامات کا کہا جائے تاکہ مناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘اہم بات یہ ہے کہ آیا اسرائیل عالمی عدالت کے کسی ممکنہ فیصلے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ عدالت کے پابند نہیں ہیں۔تاہم میک انٹائر نے کہا کہ اسرائیل کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ان کے بقول: ’اگر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ نسل کشی کا ’خطرہ‘ ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتی ہیں۔‘

رکن ممالک عالمی عدالت انصاف کے احکام پابند ہیں لیکن اس کے پاس ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور کچھ ریاستیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں، مثال کے طور پر روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا۔آخر میں اس کا ایک علامتی پہلو بھی ہے جس کے پیش نظر اسرائیل اخلاقی حمایت کھو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے