فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے: پاکستانی مندوب
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسئلے کے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔
منگل کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ’مشرق وسطیٰ کی صورت حال بشمول مسئلہ فلسطین‘ کے عنوان سے وزارتی سطح کی بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا: ’دو ریاستی حل کی ناگزیریت کو یقینی بنانے کے لیے اب یہ وقت ہے کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے۔‘
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
منیر اکرم نے اس حوالے سے کہا: ’گذشتہ تین ماہ کے دوران دنیا نے 21 ویں صدی میں عام شہریوں کے سب سے وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کیا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے 25000 سے زیادہ شہری، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، مارے گئے ہیں۔ 20 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں اور قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی امداد کو جان بوجھ کر روکا گیا ہے۔انہوں نے کہا: ’بے گناہوں کا یہ وحشیانہ قتل اور پوری آبادی پر مسلط اذیت نسل کشی کے مترادف ہے جیسا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں دائر کیے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے۔‘
پاکستانی مندوب نے غزہ کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی قرادادوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: ’یہ افسوس ناک ہے کہ سلامتی کونسل میں تقریباً متفقہ ووٹوں اور جنرل اسمبلی کی طرف سے دو قراردادوں کے مطالبے کے باوجود بین الاقوامی برادری ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے والی اس نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تشدد اور جنگ ملحقہ علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ ’جب تک اسرائیل کی جنگی مشین کو روکا نہیں جاتا اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے جس میں بہت سی قومیں لپیٹ میں آسکتی ہیں۔اس سلسلے میں ’سلامتی کونسل پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی جنگ اور غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف مظالم کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں ہونے والی بربریت کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے سفارتی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستانی مندوب منیر اکرم نے مزید کہا کہ ’یہ اسرائیل اور فلسطینیوں اور اسرائیل اور عرب و اسلامی دنیا کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے واحد قابل عمل آپشن ہے۔‘
بقول منیر اکرم:’ بدقسمتی سے عالمی رائے عامہ اور اپنے قریبی اتحادیوں اور اپنے بہت سے لوگوں کے مشورے کے باوجود انتہا پسند اسرائیلی قیادت وحشیانہ جنگ جاری رکھنے اور فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کے امکان کو مسترد کرنے پر بضد ہے جس سے مشرق وسطیٰ کو نقصان پہنچے گا۔اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل (فلسطین کے لیے) اقوام متحدہ کی پوری رکنیت کے لیے ایسے اقدامات پر غور کرے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمیں امید ہے کہ کونسل آخرکار ایک قرارداد منظور کر سکے گی جس میں غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد تک مکمل رسائی اور فلسطینی عوام کے لیے بین الاقوامی تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔منیر اکرم نے تجویز دی کہ ’امن کی بحالی کا یہ عمل سلامتی کونسل کے فریم ورک کے اندر تمام متعلقہ ریاستوں اور سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اگر اسرائیلی قیادت اس سے انکار کرے تو سلامتی کونسل کی جنرل اسمبلی اور درحقیقت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو اس کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے فیصلوں کی تعمیل کے لیے ایسے اقدامات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور یہ فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔آخر میں انہوں نے کہا: ’دو ریاستی حل کی ناگزیریت کو یقینی بنانے کے لیے اب یہ وقت ہے کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے۔منیر اکرم نے کونسل کی بحث کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: ’اس کونسل کی بحث میں سنائی دینے والے فصیح الفاظ سے ہٹ کر ہم (فلسطین میں) بے گناہوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی تلاش میں ہیں۔‘
اگرچہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اب بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کسی نہ کسی شکل میں فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو جائیں، تاہم بن یامین نتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے تصور کے خلاف اپنی مزاحمت دگنی کر دی ہے۔فلسطینی ریاست کے مستقبل کے حوالے سے امریکی حکومت اور دنیا بھر کے اتحادیوں کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ٹیلی فونک گفتگو میں عوامی سطح پر ان سے اختلاف کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا: ’صدر بائیڈن کے ساتھ بات چیت میں وزیراعظم نتن یاہو نے اپنی اس پالیسی کا اعادہ کیا کہ حماس کے خاتمے کے بعد اسرائیل کا غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ اسرائیل کے لیے مزید خطرہ نہ رہے۔ یہ مطالبہ فلسطینی خودمختاری سے متصادم ہے۔‘