ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار میں اختلاف، پاکستان کے لیے کتنا بڑا چیلنج؟

222206-58166646.jpg

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم جماعت الاحرار کے درمیان اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب ایک روز قبل جماعت الاحرار کے غیر رسمی پروپیگنڈہ چینل ’غازی میڈیا گروپ‘ سے ٹی ٹی پی کے مرکزی سربراہ کے خلاف ایک بیان جاری کیا گیا۔

غازی میڈیا سے جاری اس بیان میں ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود پر سخت الزامات عائد کیے گئے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا جب ٹی ٹی پی کی جانب سے جماعت الاحرار سے وابستہ کمانڈر سر بکف مہمند اور عمر خراسانی کو پہلے عہدہ دیا گیا لیکن بعد میں مبینہ طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

یہ اختلافات گذشتہ سال جماعت الاحرار کے عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد سامنے آئے تھے، جب انہیں افغانستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔

جماعت الاحرار کے کچھ حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اس قتل کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ پر عائد کی تھی۔

تاہم اب جاری کیے گئے بیان میں جماعت الاحرار نے واضح طور پر ٹی ٹی پی کے امیر پر الزام عائد کیا کہ ’خالد خراسانی کو پاکستانی اداروں کی ایما پر ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنے گھر بلا کر قتل کیا۔‘

بیان میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ’ٹی ٹی پی کے امیر نے عمر خالد خراسانی کے ساتھیوں کو مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا اور انہیں منظر سے ہٹانے کی کوشش کی۔

’مفتی نور ولی کے یہ فیصلے ٹی ٹی پی کی رہبر شوریٰ کے نہیں بلکہ آمرانہ فیصلے ہیں جنھیں اکثریت کی حمایت حاصل نہیں۔‘

غازی میڈیا کے بیان پر ردعمل میں ٹی ٹی پی کا تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ٹی ٹی پی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔

جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع مہمند سے تھا۔
انہوں نے ٹی ٹی پی سے اختلافات کے بعد جماعت الاحرار کے نام سے ایک الگ دھڑا بنایا تھا لیکن بعد میں جماعت الاحرار نے دوبارہ ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرلی اور عمر خالد خراسانی ٹی ٹی پی کے مرکزی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔

ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ اور جماعت الاحرار کا غازی میڈیا ماضی میں بھی ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے چکے ہیں۔

اکتوبر 2023 میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان نے غازی میڈیا کے بیانات سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا تھا اور انہیں ٹی ٹی پی کا ’رسمی موقف‘ قرار دینے کی تردید کی تھی۔

اسی کے ردعمل میں غازی میڈیا نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے بیانات میں الاحرار کا نام نہیں بلکہ تمام شدت پسند تنظیموں کے رسمی موقف اور بیانات جوں کے توں نشر کیے جاتے ہیں، جس میں عمر میڈیا کے بیانات شامل ہیں۔

اسی بیان میں غازی میڈیا نے ٹی ٹی پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے غازی میڈیا کے خلاف بیانات جاری کرنے سے غازی میڈیا کو متنازع بنانے کی کوشش اور تحریک کی وحدت توڑنے کی کوشش کی گئی۔

گذشتہ سال جنوری میں پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد پر حملے کی ذمہ داری غازی میڈیا نے قبول کی تھی، جبکہ عمر میڈیا نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

صحافی و تجزیہ کار طاہر خان نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے سربکف مہمند اور عمر خراسانی کو عہدوں سے دوبارہ ہٹانے کا ایک خط گردش کر رہا ہے، لیکن رسمی طور پر بیان جاری نہیں کیا گیا کہ انہیں ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی تردید بھی نہیں کی گئی تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے مابین اختلافات کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں، لیکن ابھی جو بیان سامنے آیا ہے تو وہ ’شدید اختلاف‘ لگتا ہے۔

بقول طاہر خان: ’ماضی میں بھی جماعت الاحرار کے سربکف مہمند اور ٹی ٹی پی کی جانب سے مختلف کارروائیوں کی الگ الگ ذمہ داریاں قبول کی گئیں اور ٹی ٹی پی کی جانب سے وضاحتیں بھی سامنے آئی ہیں۔‘

طاہر خان کے مطابق ماضی میں بھی جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی کے مابین اختلاف موجود رہے ہیں کیونکہ ہر تنظیم خود کو بڑا سمجھتی ہے۔

غازی میڈیا کی جانب سے ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے حوالے سے گذشتہ دو دنوں سے کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

اس صورت حال میں طاہر خان سے پوچھا گیا کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ دورہ افغانستان کے بعد دونوں میں کوئی غیر اعلانیہ سیز فائر تو نہیں ہوا؟

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’ایسا نہیں ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے دورے سے واپسی پر اس حوالے سے کسی قسم کی بات نہیں کی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن کے واپسی کے بعد بھی کچھ کارروائیاں کی گئیں اور گذشتہ دو تین دنوں سے اگر کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تو شاید کسی جگہ پر ٹی ٹی پی نے حملہ ہی نہ کیا ہو جبکہ دوسری جانب سکیورٹی فورسز کی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔‘

رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں مقیم صحافی وتجزیہ کار ہیں اور شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے گذشتہ 15 سالوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے مابین اختلافات بڑھ گئے تھے لیکن اتنی شدت سے اخلافات سامنے آنے کی توقع نہیں تھی کہ الاحرار کے سینیئر کمانڈروں کو پہلے عہدے دیے جائیں اور پھر ہٹا دیا جائے۔

رفعت اللہ سمجھتے ہیں کہ اس اختلاف کے بعد الاحرار گروپ ٹی ٹی پی سے الگ ہونے پر سوچے گا کیونکہ اتنے اختلاف کے بعد یہ دونوں گروپ ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ دوسری جانب جماعت الاحرار شروع دن سے مذاکرات کے مخالف بھی تھی اور اس حوالے سے بھی ٹی ٹی پی اور اس کے موقف الگ الگ تھے۔

انہوں نے بتایا: ’مفتی نور علی محسود کے امیر بننے کے بعد ٹی ٹی پی میں 40 کے قریب چھوٹے بڑے دھڑے ایک ہوگئے تھے لیکن ابھی جو منظر نامہ ہے تو جماعت الاحرار دوبارہ جدا ہوسکتی ہے اور غازی میڈیا نے اپنے بیان میں بتایا بھی کہ وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔‘

اگر جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ دو بڑے شدت پسند گروپوں سے ڈیل کرے؟

اس سوال کے جواب میں رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ دو تین مہینے پہلے جماعت الاحرار نے مختلف کارروائیاں شروع کی تھیں اور ٹی ٹی پی ان حملوں سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کر رہی تھی تو یہ بالکل درست ہے کہ دونوں تنظیموں کی جانب سے حملے پاکستان کے لیے چیلنج ضرور ہوں گے۔

تاہم رفعت کے مطابق یہ بعد میں واضح ہوجائے گا کہ اگر جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی جدا ہوتے ہیں تو جماعت الاحرار کا افغانستان میں رہنے کا کیا سٹیٹس ہوگا اور افغان طالبان اس گروپ کو کس نظر سے دیکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے