سمرتی ایرانی کی حجاز مقدس آمد اور موسیقی کی تربیت کا بندوست
سمرتی ایرانی کا تعلق انڈیا سے ہے، جو ایک سینیئر سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ اداکارہ، فیشن ماڈل اور ٹیلی ویژن پروڈیوسر بھی رہی ہیں، آج کل ”مائینارٹی منسٹر“ کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
حال ہی میں سعودی سرکار کی دعوت پر انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا، اس دورے کے دوران وہ اپنے روایتی لباس میں ملبوس مقدس مقامات پر بھی گئیں، مسجد نبوی کے باہر مختلف لوگوں سے بات چیت کی اور تصاویر وغیرہ بھی بنوائیں۔ سعودی حکام کے ساتھ ملاقات کے علاوہ کچھ یادداشتوں پر دستخط وغیرہ بھی ہوئے۔
وہ دراصل اپنے ملک کے مسلمانوں کے لیے وہاں پہنچی تھیں جو حج و عمرہ کی غرض سے اس مقدس سرزمین پر آتے ہیں، ان کے انتظام و انصرام، ریلیف اور سہولیات کے متعلق گفت و شنید کرنا ان کے ایجنڈے میں شامل تھا، جو کہ ان کے فرائض منصبی کا تقاضا بھی ہے کو پورا کرنے کے لیے وہ سعودی عرب پہنچی تھی۔
جیسے ہی سمرتی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ”امہ“ کا وجود خطرے میں پڑ گیا، اس مسئلے پر وی لاگ بننا شروع ہو گئے، تقریباً ہر مذہبی چینل پر ایک ہی سوال مختلف طرح سے گردش کر رہا تھا کہ حجاز مقدس کی سرزمین پر ایک غیر مذہب سے تعلق رکھنے والی اور وہ بھی خاتون کا یہاں کیا کام ہے؟ وہ ننگے سر اپنے روایتی لباس میں وہاں کیا کر رہی ہے؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مسلم شخصیت پاک سرزمین پر اپنے قدم ٹکائے؟
کیا کسی دوسرے مذہب کے انسان کو مقدس مقامات کی یاترا کروائی جا سکتی ہے؟ سعودی حکام ایسا کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ کسی غیر مسلم اور ننگے سر والی خاتون کو اس قدر بے باکی سے آزادی دیں کہ وہ جہاں جانا چاہے چلی جائے؟
اس قسم کے سوالات کی گردان اسی دن سے جاری ہے جس دن سے سمرتی سرکاری مہمان کے طور پر سعودیہ پہنچی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے سوال کن سے پوچھے جا رہے ہیں؟
کیا سعودی حکام سے پوچھے جا رہے ہیں؟
بالکل نہیں بلکہ یہ ایک طرح کی آپس میں بھڑاس نکالنے کی ایک لا حاصل سی مشق ہے۔ ہماری کیا اوقات کہ ہم سعودی حکام سے پوچھیں کہ جناب! آپ اس طرح کی حرکات کیوں کر رہے ہیں جو کہ غیر اسلامی ہیں؟
ہم کس حیثیت میں یہ سب ان سے پوچھ سکتے ہیں کیونکہ وہ تو خود حقیقی اسلام کے وارث ہیں۔
انہی کی سرزمین سے تو اسلام کا سورج طلوع ہوا تھا اور وہیں سے سرچشمہ رشد و ہدایت پھوٹا تھا۔
ظاہر ہے پھر تو وہی اسلام کا مستند حوالہ ہوئے نا!
ہم ایسوں کا ان کو یہ بھاشن دینا بنتا نہیں ہے کہ وہ خلاف اسلام سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ہم بطور عجمی یہ دعوی کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری اسلامک انڈرسٹینڈنگ عربوں سے کہیں زیادہ ہے؟ ہم تو عجمی ہیں اور ہماری مادری زبان بھی عربی نہیں ہے۔
ہمیں اسلام کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لیے ٹرانسلیشن کا سہارا لینا پڑتا ہے، یعنی ہم ڈائریکٹ فیضیاب نہیں ہو سکتے۔
جبکہ مذہب اسلام عربی زبان میں ہے، عرب میں ہی نزول ہوا اور اہل عرب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ مذہب اسلام کا فہم اپنی آبائی زبان میں بغیر کسی ٹرانسلیشن کے ڈائریکٹ حاصل کر سکتے ہیں، اسی لیے تو شہزادہ سلمان نے احادیث کے متعلق بھی سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ اسلام کا ڈائریکٹ ذریعہ قرآن مجید ہے نا کہ احادیث مبارکہ۔
بھئی وہ مذہب کے حقیقی وارث جو ٹھہرے وہ جو بھی کہیں گے دنیا بھر کے مسلمانوں پر ان کی تقلید واجب ہوگی۔ اسی مناسبت سے وہ بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر کن لوگوں کو بلائیں، کون سے تہوار سیلیبریٹ کریں اور کن فلمی اداکاروں یا اداکاراؤں کو مدعو کریں۔
اسی لیے تو آج کے سعودی عرب میں وہ تمام تہوار سیلیبریٹ ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں پورے اہتمام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔
مثلاً
نئے سال کا جشن۔
ہالووین۔
ویلنٹائن ڈے۔
اور ہر وہ تہوار جو مہذب دنیا میں سیلیبریٹ ہوتے ہیں سعودی سرزمین پر بھی سیلیبریٹ کیے جا سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں۔ حضور ابھی تو شروعات ہیں، 2030 کا سعودی عرب بالکل ہی مختلف ہو گا، اس وقت ”امہ“ کس حال میں ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
حال ہی میں سعودی حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین ٹیچرز کو میوزک کی تربیت بھی دی جائے گی۔
اب یہ گنجائش انہوں نے کہاں سے نکالی ہے اور کس روایت سے استنباط کیا ہے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں، لیکن ہمیں اعتراض کرنے یا انہیں دین سکھانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ بہرحال دین تو وہی کہلائے گا جو حجاز مقدس والوں کا ہو گا اور انہی کی توضیح و تشریح معتبر مانی جائے گی۔
ویسے حیرت ہے کہ ابھی تک ہمارے علماء کرام سڑکوں پر نہیں نکلے نا ہی اپنی املاک کو نقصان پہنچایا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سعودی حکام کے غیر شرعی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے اور انہیں بتاتے کہ جناب کی وجہ سے امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکتے چلے جا رہے ہیں اور آپ راہ ہدایت سے بھٹک چکے ہیں۔ جس کا ثبوت آپ کے ڈانسنگ کلب، پب، سینماؤں کی چمک دھمک اور کفار کے رسوم و رواج اور چال چلن کو سینے سے لگانا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان کو قائل کر سکتے ہیں؟
کیا وہ ہمارے موقف کو اپنے موقف پر ترجیح دے پائیں گے؟ اگر وہ ہمارا موقف تسلیم کریں تو کس بنیاد پر؟
ہم ٹھہرے عجمی، ان کی تائید و حمایت تو ہمارے اوپر ہر حال میں لازم ہے۔ کیونکہ وہ وہی زبان جانتے ہیں جس زبان میں مذہب کا نزول ہوا اور خوش قسمتی سے وہی ان کی مادری زبان بھی ہے۔
ہماری کیا اوقات کہ ہم مذہب کے حوالہ و تشریح پر ان سے الجھیں؟
ان کو غلط یا جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ہم جو بھی مواد ان کے سامنے پیش کریں گے کیا خیال ہے وہ اس قسم کی ساری تفصیل یا مواد سے لاعلم ہوں گے؟
ہم موسیقی، شراب، ڈانس، کافرانہ تہوار اور سینماؤں کے حرام ہونے کے متعلق جو روایات پیش کریں گے کیا وہی روایات ان کی نظروں سے نہیں گزری ہوں گی؟
ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ مہا وارثان دین اپنے دین کی حقیقی فہم سے عاری ہوں؟
ایسا کہنا یا گمان کرنا ہی بے بنیاد سا لگتا ہے۔
سیکولر اور انسان دوست کی حیثیت سے ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ جہاں سے جو فکر پھوٹتی ہے وہی اس فکر کے حقیقی وارث اور پیامبر ہوتے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں جو سب سے اہم بات ہے اس کا ادراک حجاز مقدس والوں کو تو بڑے اچھے سے ہو چکا ہے مگر ہم اس فہم سے ابھی کوسوں دور ہیں۔
وہ اس حقیقت کو پا چکے ہیں کہ جو طاقتور ہو گا اسی کا راج ہو گا، وہی دنیا سے بات کر پائے گا جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو گا۔ خالی پیٹ اور کمزور معیشت کے ساتھ بھیک تو مانگی جا سکتی ہے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے ہم بھلے تسلیم کریں یا نا کریں کہ دنیا کے تمام فلسفے روٹی کے گرد گھومتے ہیں، خالی پیٹ تو عبادت و ریاضت میں بھی چاشنی ختم ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے تو دنیا بھر کے غریب انسان حجاز مقدس کی یاترا کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے دنیا سے چل بستے ہیں۔
کیونکہ ان کی جیب میں پیسے ہی نہیں ہوتے۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ مضبوط معیشت کے بغیر عبادت بھی ممکن نہیں رہی۔