’کُج سانوں مرن دا شوق وی سی‘: عاصمہ شیرازی کا کالم

images.jpg

ریشم کے دھاگے ببول میں اُلجھ جائیں تو سلجھ نہیں سکتے اور یہاں تو ایسے گُنجل ہیں کہ سلجھائے نہ سُلجھیں۔ دلدل گہری ہے اور ریاست گھٹنوں گھٹنوں اس میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست اور ریاست جس افراتفری سے گُزر رہی ہے اُس میں تقسیم گہری ہو رہی ہے۔

مکمل ٹوٹ پھوٹ کے بعد ارتقا کا عمل شروع ہو گا یا ہر روز ٹوٹی چیزوں کو فکس کرنا ہو گا؟

بقول جون ایلیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات آئین میں دستیاب قانون کی بنیاد پر مسترد کیے۔ عدالت کے سامنے سوال ایک سیاسی جماعت کے اندر ’فری اینڈ فئیر‘ انتخابات کا تھا اور جوابدہ تحریک انصاف تھی۔

الیکشن کمیشن کا سوال تھا کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے، تحریک انصاف کا جواب تھا کہ ماحول نہیں تھا اور لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہ تھی۔ عدالت کا سوال تھا کہ انتخابات 2021 میں ہونا تھے جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، تحریک انصاف کے پاس اس کا جواب موجود نہ تھا۔

عدالت نے قانونی نکات کا قانونی جواب دیا مگر حیرت انگیز بات ہے کہ ہمیشہ ’فیس نہیں کیس‘ دیکھنے کا مطالبہ کرنے والے قانون دان، سیاست اور صحافت کے ماہرین اس کیس میں ’فیس‘ دیکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کروڑوں ووٹرز کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے مگر ذمہ دار کون ہے؟ بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف کو بھی اپنے ووٹرز کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔

تحریک انصاف کے انتخابی نشان ’بلے‘ سے متعلق حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک سوال بار بار اٹھایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ بلا اُن کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے پھر اس کے لیے کیونکر بہتر سیاسی حکمت عملی اختیار نہ کی گئی۔

یعنی تین سیاسی و مذہبی جماعتیں تحریک انصاف کو ’انتخابی نشان‘ کی سہولت دینے کو تیار تھیں، کیا وجہ تھی کہ تحریک انصاف بروقت سیاسی حکمت عملی اختیار نہ کر سکی؟ قانونی و سیاسی مقدمے کی پیروی ایک الگ سوال ہے تاہم تحریک انصاف نے ان تمام پہلوؤں کا جائزہ کیوں نہ لیا۔

مجلس وحدت کے ساتھ الحاق نہ ہونے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے نشان کے ساتھ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا کے لیے مشکلات پیش آتیں مگر بیانیہ بنانے والی سیاسی جماعت کے لیے یہ کہیں مشکل نہ ہوتا کہ وہ ان حالات میں یہ فیصلہ ووٹرز کی سہولت کے لیے کر لیتی۔

کج اونجھ وی راہواں اوکھیاں سن

کج گل وچ غم دا طوق وی سی

کج شہر دے لوک وی ظالم سن

کج سانوں مرن دا شوق وی سی

اب تحریک انصاف کے پاس آپشنز کیا ہیں؟ بچی کھچی تحریک انصاف انتخابات کے بعد ایک پرچم تلے اکٹھی ہو سکتی ہے؟ نئے نام اور نشان کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے اور سینیٹ میں اپنی بقا کی کوشش کر سکتی ہے؟ ایسے میں اصل امتحان جیل سے باہر قیادت کا ہے جو فی الحال دستیاب نہیں ہے۔

اب سوال ہے لیول پلیئنگ فیلڈ کا۔ پنجاب میں تحریک انصاف شکوہ کر رہی ہے تو خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق شور اُٹھتا رہا اور بلآخر بلوچستان میں چند نئی شخصیات کے تیر کمان میں سجانے کے بعد یہ شکوہ کہیں گُم ہوتا دکھائی دیا۔

یہ سوال کہیں نہیں اُٹھ رہا کہ خیبر پختونخوا میں دستیاب ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ ایک جماعت کے لیے کیوں اور کس کی جانب سے ہے؟ خراسان ڈائری کے ہمارے دوست افتخار فردوس کے مطابق 2019 سے اب تک مولانا کے 47 کارکن خودکُش حملوں جبکہ 23 حالیہ چند ماہ میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جا چُکے ہیں۔ خود مولانا کو ایک دہشت گرد تنظیم سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی افغانستان میں حالیہ ملاقاتوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاہم اس ملاقات کے کئی ایک علاقائی مقاصد بھی ہیں
حالت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے علاقے یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی باہر نکلنے سے قاصر تھے شاید یہی وہ سبب ہے کہ مولانا کو افغانستان کا دورہ کرنا پڑا اور ملا ہیبت اللہ سے ملاقات پر امریکہ سمیت خطے کی اہم شخصیات انگشت بدنداں ہیں کہ تحریک طالبان افغانستان کے امیر کسی سے ملاقات پر رضامند نظر نہیں آتے۔

اس ملاقات کے ’پیکج‘ میں کیا ہے یہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بظاہر تحریک طالبان افغانستان تحریک طالبان پاکستان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے مگر ریاست پاکستان متعدد بار افغانستان کے ساتھ تانے بانے پر احتجاج بلند کرتی بھی دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ اسی معاملے پر پاکستان اور افغانستان تعلقات کی بدترین نہج پر ہیں۔

گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں تمام فالٹ لائنز ایک ساتھ ناصرف متحرک ہوئی ہیں بلکہ خدانخواستہ آئندہ انتخابات تک امن وامان کی صورتحال کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔ ایک طرف جہاں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خطرات ہیں تو دوسری جانب انتہا پسند قوتیں بھی ان فالٹ لائنز پر نظر رکھے بیٹھی ہیں اور موقع کی تلاش میں ہیں۔ اس صورتحال میں پُرامن انتخابات کا انعقاد ریاست کے لیے یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کی سیاست میں بھونچال کب تھمے گا اور اُس کے آفٹر شاکس کب تک رہیں گے اس سوال کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے