فلسطین کی لیلیٰ خالد: آزادی کی متوالی یا دہشت گرد؟

4710565.jpg

”میں لیلی خالد ہوں۔ میں وہ فلسطینی ہوں جو 75 سال سے ابھی تک پناہ گزین ہے۔ میں پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کی سینٹرل کمیٹی میں ہوں۔ اس وقت اردن (عمان) میں رہتی ہوں۔“ یہ تعارفی جملے مشہور فلسطینی لیڈر 79 سالہ لیلی خالد نے اپنے حالیہ انٹرویو کی ابتدا میں ادا کیے۔ ان کا یہ انٹرویو حماس کے سات اکتوبر 2023ء کے اسرائیل پر حملے اور اس کے نتیجہ میں شدید بربریت کا مظاہرہ کرنے والے اسرائیلی جوابی حملے کے بعد لیا گیا۔

لیلیٰ خالد نے اپنے انٹرویو میں کہا، ”اسرائیلی کہہ رہے ہیں کہ وہ حماس پہ حملہ کر رہے ہیں لیکن بچے اور عورتیں حماس نہیں۔ وہ ہمارے لوگوں پہ حملہ کر ہے ہیں اور اس دفعہ یہ نسل کشی ہے۔“ انہوں نے اسرائیلی وزیر کے اس دعوے کہ ”اس جنگ کے بعد غزہ اور چھوٹا ہو جائے گا“ کی تردید کرتے ہوئے کہا ”غزہ اب پوری دنیا میں پھیل گیا ہے کیونکہ ساری دنیا کے لوگ فلسطینیوں کی حمایت میں ہیں۔ خواہ وہ جیلوں میں ہوں یا مارے جا رہے ہوں۔ غزہ میں ابھی بھی زندگی ہے“

لیلی خالد دنیائے عرب سے تعلق رکھنے والی وہ پہلی فلسطینی خاتون لیڈر ہیں جنہوں نے بالترتیب 1969ء اور 1970ء میں دو اسرائیلی طیاروں کو اغوا کر کے اور اپنے وطن فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ اس طرح ان واقعات کے بعد پہلی بار ساری دنیا کی توجہ اسرائیل اور عرب مسئلہ کی جانب سنجیدگی سے مبذول ہوئی۔

مگر اپنے وطن سے بے دخلی اور گھروں پہ ناجائز قصبے کے بعد عملاً احتجاج اور وطن کی آزادی کا مطالبہ کرنا آسان نہیں تھا۔ اس کام کے لیے پچیس سالہ نوجوان لیلی کو آسمان کی وسعتوں میں معلق طیارے کو اغوا کرنے کے لیے سربہ کفن ہونا پڑا، جہاں ان کی مدد کے امکانات بالکل معدوم تھے۔

اپنے مشن کو انجام دینے کے لیے وہ دستی بموں اور پستول جیسے جان لیوا ہتھیاروں سے مسلح تھیں۔ گو ان کی آزادی کا ایک مشن کامیاب اور دوسرا ناکام ہوا۔ لیکن حقیقت میں تو انکا اصل مشن عرب اسرائیل کے معاملے سے منہ موڑنے والی بے خبر دنیا کی توجہ حاصل کرنا تھا، جس میں وہ کامیاب ہو چکی تھیں۔

طیاروں کے مسلح اغوا کے بعد کچھ لوگوں کی نظر میں وہ دہشت گرد قرار پائیں تو دنیائے عرب کے لیے وہ لیلائے وطن کی آزادی کی متوالی، مزاحمتی مجاہدہ اور دنیا میں حریت پسندی و جرات مندی کی علامت بن کے ابھریں۔ اپنی بہادری اور سر فروشی کے سبب انہیں آج بھی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ جگہ جگہ ان کا شہرہ آفاق پوسٹر چسپاں ہے جس میں وہ ایک ہاتھ میں AK 47 رائفل اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان کی انگلی کی انگوٹھی میں ہیرے کی جگہ بارود سے بھری گولی جڑی ہے، اور وہ فتح مندانہ انداز میں مسکرا رہی ہیں۔

لیلیٰ خالد نو اپریل 1944ء کو فلسطین کے علاقے حائفہ میں علی خالد اور جمیلہ لطف کے گھر پیدا ہونے والی چھٹی اولاد تھیں۔ ان کے سات بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ ہر فلسطینی بچے کی طرح، ان کا بچپن، پچھتر سال پہلے بھی، غیر محفوظ اور خوف سے بھرپور تھا۔ وہ بتاتی ہیں۔

”مجھے اپنے بچپن کی دو جگہیں یاد ہیں، ایک باورچی خانہ اور دوسرا سیڑھیاں۔“ کیونکہ جب بھی دو گروہوں، زانیس ملٹری، ملیشیا یا برٹش کے درمیان لڑائیاں ہوتیں تو ہم آٹھ بہن بھائیوں کو دوسری منزل پہ واقع گھر سے سیڑھیاں اتر کر نیچے محفوظ جگہ پہ چھپنا پڑتا۔

حائفہ میں ہونے والی لڑائیوں کے سبب قتل اور عورتوں کی عزت کی پامالی کے واقعات کی وجہ سے 13 اپریل 1948ء کو چار برس کی عمر میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ امی کے انکل کے گھر جنوبی لبنان منتقل ہونا پڑا۔ اس وقت ان کے والد آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ حائفہ میں ہی رہ گئے تھے۔

لیلیٰ نے بتایا، ”جس لمحے ہم اس گھر میں (لبنان) داخل ہوئے تو میز پہ نارنگیاں تھیں، اس وقت میری ماں نے کہا اسے مت چھونا، یہ تمھاری نہیں۔ تمھاری نارنگیاں فلسطین میں ہیں۔ اس وقت سے مجھے نارنگیوں سے نفرت ہو گئی۔“

خوش قسمتی سے لیلی کے سر پہ تو چھت تھی۔ لیکن فلسطین سے بے دخل ہونے والے دوسرے پناہ گزین کسمپرسی کا شکار تھے۔ بتدریج فلسطین اسرائیل بن گیا جہاں شروع میں آنے والے دس ہزار اسرائیلی حائفہ پہنچے۔ یہ ہولوکاسٹ کا شکار وہ یہودی تھے جو سالہا سال کی جلاوطنی کے بعد یورپ سے پہنچے تھے۔ لیکن اب اس میزبان ملک کی صورتحال دگرگوں تھی۔ کیونکہ اس میں یہودیوں کے دہشت گرد گروپ کے ممبرز تھے۔ جنہوں نے لیلیٰ کی سالگرہ یعنی نو اپریل 1948ء والے دن کئی سو لوگوں کو مارا۔

بیسویں صدی کی ابتدا سے فلسطین برطانوی تسلط میں تھا۔ 1917ء میں برطانیہ کی حکومت نے یہودیوں سے ان کو وطن دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ جو گیارہ مئی 1949ء کو اس وقت پورا ہوا کہ جب اقوام متحدہ نے دو تہائی اکثریت سے اسرائیل کو نئی ملک کے تحت تسلیم کر لیا۔ لیکن اس وعدہ کا مطلب وہاں پہلے سے رہنے والوں کی آبادی کا انخلاء تھا۔ جس کی وجہ سے ان شہریوں نے اردن، لبنان، شام اور مصر جیسے پڑوسی ممالک میں پناہ ڈھونڈی۔ گھروں سے بے دخل یہ پناہ گزین اور ان کی نسلیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کیمپوں میں بے سروسامانی کی حالت میں آج بھی رہ رہی ہیں۔

اسرائیل کے وزیر دفاع موشے دایان کی سربراہی میں 1967ء میں پانچ سے دس جون کے درمیان ہونے والی عرب اسرائیل چھ دن کی مختصر جنگ میں اسرائیل، شام سے گولان ہائٹس، اردن سے مغربی بینک، مشرقی یروشلم اور مصر سے غزہ پٹی اور جزیرہ سینائے پہ قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

عرب ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ فلسطینوں کو ان کا ملک واپس دلائیں گے مگر سوائے مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے، جو اس وقت بہت بیمار تھے، امن معاہدے میں کسی نے کوئی مدد نہ کی۔ اور 28ستمبر 1970ء کو جمال ناصر کی موت کے بعد رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔

لیکن وطن چھوڑنے کے سالوں بعد بھی فلسطین کے پناہ گزینوں نے وطن واپسی کے لیے انتظار کی گھڑیاں کاٹنی نہیں چھوڑیں۔ آزادی کے ان متوالوں میں نوجوان لیلیٰ خالد بھی شامل تھیں جو اپنے بڑے بھائی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے 1959ء سے ہی عرب نیشنلسٹ یونین میں شامل ہو گئی تھیں۔

لیلیٰ 1963ء میں بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوئیں مگر تعلیم کے اخراجات کی سکت نہ ہونے کے سبب تعلیم چھوڑ کے کویت کے سرکاری اسکول میں انگریزی ٹیچر کی ملازمت کرلی، جہاں وہ 1963 ءسے 1969ء تک وابستہ رہیں۔ اس کے بعد وہ ملازمت چھوڑ کے 1967ء میں قائم ہونے والی پا پولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین PFLP (جس کو ڈاکٹر ودیع حداد نے قائم کیا تھا) ، سے وابستہ ہو گئیں اور آزادی کے مختلف منصوبوں کے لیے مسلسل کوشاں رہیں۔ ان کی فوجی تربیت اردن کے ملٹری کیمپ میں ہوئی۔ جہاں ایک دن ڈاکٹر حداد نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مرنے یا جیل میں جانے کے لیے تیار ہیں تو ان کا جواب تھا ”اب میں ایک مجاہدہ ہوں اور ہر چیز کے لیے تیار ہوں۔“ یقیناً وہ وطن کی آزادی کے لیے جان دینے کے لیے بھی تیار تھیں۔

لیلیٰ کا پہلا اہم تاریخ ساز مشن 29اگست 1969ء کو انجام پایا۔ جس کا ہدف آزادی کے لیے لڑنے والے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرانا اور دنیا کو فلسطین کے مسئلہ کی طرف متوجہ کرانا تھا۔ اس وقت تنظیم کو اطلاع ملی تھی کہ امریکہ میں تعینات اسرائیل کے سفیر روم سے تل ابیب جانے والے طیارے ٹی ڈبلیو اے 707 فلائیٹ نمبر 840 میں سفر کریں گے۔ (یہ بات اور ہے کہ سفیر کسی وجہ سے اس طیارے میں سوار نہ ہو سکے۔ ) طیارے کی ہائی جیکنگ کے وقت لیلیٰ کی عمر 25 سال تھی۔ ان کے کہنے کے مطابق ”اس وقت میں نے ہائی جیک کا نام بھی نہ سنا تھا۔ ہماری اصطلاح میں اسے جدوجہد یا لڑائی کہتے ہیں۔

1969ء کے مشن میں ان کے ساتھی پارٹی کے مقبول لیڈر کامریڈ سلیم اساوی تھے۔ جو چی گویرا کمانڈر یونٹ کے گوریلا جنگجو تھے۔ مشن کے وقت لیلیٰ خالد سفید لباس میں ملبوس تھیں۔ ان کے سر پہ مخصوص ٹوپی تھی۔ دونوں مسلح افراد روم، اٹلی، کے ائر پورٹ کے سیکیورٹی عملے کی آنکھ میں دھول جھونک کے ائرپورٹ کے ویٹنگ روم میں اس طرح بیٹھے تھے جیسے ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں۔ ان کی بکنگ فرسٹ کلاس کی تھی تاکہ کاک پٹ تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ طیارے میں دونوں آس پاس بیٹھے تھے۔

ائر ہوسٹس نے سلیم کو شراب اور لیلیٰ کو کافی پیش کی۔ لیلیٰ نے کچھ نہ کھایا۔ انہوں نے ائر ہوسٹس سے کہا انہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور پیٹ میں درد ہے۔ لہٰذا انہیں کمبل دیا جائے۔ جب انہیں کمبل ملا انہوں نے دستی بم اور پستول کمبل کے نیچے رکھ دیا۔ اب طیارہ 30000 فٹ کی بلندی پہ تھا۔ جیسے ہی ائر ہوسٹس نے ٹرے میں کھانا لے کر جانے کے لیے کاک پٹ کا دروازہ کھولا، سلیم چھلانگ لگا کے کاک پٹ تک پہنچ گئے۔ ان کے پیچھے لیلیٰ بھی اندر داخل ہوئیں۔

اس کارروائی کے دوران ائر ہوسٹس کے ہاتھ سے ٹرے گر گئی۔ وہ زور سے چیخی اور مخالف سمت میں بھاگنے لگی۔ پروگرام کے مطابق لیلیٰ کیپٹن کی سیٹ پہ بیٹھ گئیں۔ اور ریڈیو کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اعلان کیا ”خواتین و حضرات یہ آپ کی نئی کیپٹن ہے۔ انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنے نام کا پہلا حصہ شادیا ابو غزالہ بتایا۔ (جو 1968ء میں فلسطین کی آزادی کے لیے مرنے والی پہلی شہید لڑکی تھی۔ ) اور پھر کہا کہ“ ہمارا تعلق چی گویرا کمانڈو یونٹ آف دی پا پولرفرنٹ فار لبریشن آف فلسطین سے ہے۔ جس نے اس ٹی ڈبلیو اے فلائیٹ کی کمانڈ لے لی ہے۔ ”وہ ریڈیو سے طیارے کے کپتان کو ہدایات دے رہی تھیں۔ کپتان نے پہلے تو ان کی ہدایات ماننے سے انکار کر دیا مگر جب لیلیٰ نے اپنا دستی بم دکھایا تو وہ ان کے حکم کی تعمیل کرنے لگا۔

لیلیٰ نے طیارے کے فرسٹ کلاس مسافروں کو پچھلے طرف اکانومی کلاس میں جانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے طیارے کو اسرائیل کے ”لوط ائر پورٹ“ پہ لے جانے کی ہدایت دی۔ لیکن اسرائیل پہنچتے ہی چھ معراج طیارے اطراف میں گشت کرنے لگے اور جب طیارہ لوط ائر پورٹ پہ پہنچا تو ہائی جیکرز سے نپٹنے کے لیے سینکڑوں ٹینک پہلے ہی موجود تھے۔ طیارے میں ایندھن کم رہ گیا تھا لہٰذا لیلیٰ نے کیپٹن کو دمشق لے جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تاکید کی کہ طیارہ ان کی جائے پیدائش حائفہ کے اوپر سے لے جایا جائے۔

”جب میں نے فلسطین کو دیکھا تو ایک لمحہ کے لیے بھول گئی کہ میں کسی مہم کا حصہ ہوں۔ میرے دل میں یہ ہوک اٹھی کہ میں اپنی دادی اور پھپھو اور وہاں موجود ہر ایک شخص کو پکار کے کہوں کہ ہم واپس آرہے ہیں۔“ دمشق کے ہوائی اڈے پہ مسافروں کے باحفاظت اترنے کے بعد سلیم اساوی نے طیارے کے اگلے حصہ کاک پٹ پہ دھماکہ خیز مواد ڈال کے اسے اڑا دیا گیا۔ اور اس دھماکہ سے دنیا ہل گئی اور پہلی بار اس کی نگاہیں فلسطین کے مسئلہ کی جانب مبذول ہوئیں۔

ملک شام کے حکام نے لیلیٰ اور سلیم کو حراست میں رکھا۔ جبکہ چھ اسرائیلی مسافران کو اپنے قبضے میں رکھا۔ اور ان کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل کے قبضے سے 71 شامی اور مصری قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ لیلیٰ نے کہا کہ یہ ایک کلین آپریشن تھا۔ اور انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اس میں حصہ لیا اور قیدیوں کی رہائی کا ہدف پورا کیا۔ ”ہمیں ہمارے رہنماؤں کی جانب سے سختی سے ہدایات تھیں کہ کسی مسافر یا کسی اور کو تکلیف نہ پہنچائی جائے جب تک کہ کوئی حملہ آور نہ ہو۔“

اس مشن کی کامیابی کے بعد ان کی ہاتھ میں رائفل اور سر پہ سفید اور سیاہ خانے کے ڈیزائین کے سوتی کپڑے کے اسکارف والی تصویر ہر اخبار کی زینت بن گئی۔ اور لیلیٰ کا چہرہ دنیا میں مزاحمت، جرات مندی اور حریت پسندی اور کچھ کے لیے دہشت گردی کی پہچان بن گیا۔

لہٰذا اگلے مشن سے قبل لیلیٰ نے اپنے چہرے کی چھ سرجریاں کروائیں۔ تاکہ کوئی ان کو پہچان نہ سکے۔

ان کا اگلا مشن چھ ستمبر 1970ء میں ارجنٹینا کے کامریڈ پیٹرک آرگیولا کے ساتھ تھا۔ لیلیٰ چار ستمبر کو لبنان سے جرمنی پہنچیں۔ جہاں دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے سے ملاقات کی۔ پھر دونوں جرمنی سے ایمسٹرڈیم گئے۔ جہاں سے نیو یارک جانے والے اسرائیلی طیارے EIAI کو اغوا کی کوشش کی۔ ان کے دو دستی بم ان کی برا bra میں چھپے ہوئے تھے۔ جبکہ بہت سارے نقشے ان کی اسکرٹ میں پوشیدہ تھے۔

مگر اس دفعہ حفاظتی عملہ مسلح اور مستعد تھا۔ جس نے پیٹرک کو مار دیا۔ گو لیلیٰ کی جان تو بچ گئی۔ مگر دو گارڈز اور مسافروں نے انہیں بہت مارا اور سر پہ وار کیا تو وہ بے ہوش ہو گئیں۔ یہ طیارہ لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ پہ اتار لیا گیا۔ باوجود ناکامی کے ان کی کوششوں سے فلسطین کی آواز دنیا میں بلند ہوئی۔ لندن میں 28 دن قید رہنے کے بعد قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور لیلیٰ کی بھی رہائی ہوئی۔

ان کارروائیوں کے بعد لیلیٰ خالد کو دنیا بھر کے صحافیوں کے سوالات کا سامنا تھا جو بقول ان کے طیارہ اغوا کرنے سے زیادہ مشکل کام تھا۔ ان کی شخصیت میڈیا کی تصوراتی عرب عورت کی اس تصویر سے بالکل مختلف تھی جس کے سر پہ حجاب اور زندگی کا مقصد بچے پیدا کرنا اور شوہر اور باپ کے احکامات کی تابعداری تھا۔ لیلیٰ نے بتایا کہ جب میری تربیت ہو رہی تھی تو اس میں نعرہ تھا۔ ”مرد اور عورتیں آزادی کی جنگ میں (ساتھ) ہیں۔“

نوجوان اور خوبصورت لیلیٰ کو میڈیا کے اس قسم کے نجی سوالات کا سامنا تھا کہ ”تم کتنے گھنٹے آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہو؟“ جس کا جواب لیلیٰ نے دیا۔ ”اس سے کم جتنا وقت آپ شیو کرتے وقت لگاتے ہیں۔“ کسی نے پوچھا، ”کیا تم محبت میں مبتلا ہو؟“ لیلیٰ نے کہا ”میں ایک فائٹر ہوں مجھ سے میرے کام کے متعلق پوچھو۔“

لیلیٰ خالد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہمیں اپنی اس امیج (تصویر) کو بدلنا ہو گا۔

اپنے کچھ سال قبل انٹرویو میں جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو دہشت گرد سمجھتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا ”یہ قبضہ دہشت گردی ہے۔ اور میرے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے حق کے لیے لڑیں۔“ انہوں نے کہا ”اسرائیل اور اس کے حامیوں نے فلسطین کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ وہ تو خود سب سے بڑے دہشت گر ہیں۔ جب حق کی آواز کو دبایا جائے گا مزاحمت تو ہوگی۔“

لیلیٰ خالد آج بھی اپنی سیاسی جدوجہد اور سیاست سے پوری طرح منسلک ہیں۔ وہ فلسطینی عورتوں کے حقوق کے لیے مسلسل متحرک ہیں اور اہم قائدانہ کردار نبھا رہی ہیں۔

لیلیٰ خالد کی سوانح عمری My People Shall کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ ان کی زندگی پہ لینا مقبول نے دستاویزی فلم ”لیلیٰ خالد ہائی جیکر“ کے نام سے 2005ء میں بنائی۔ ان پہ بہت کچھ لکھا گیا لیکن ایک مشہور آرٹ ورک ”دی آئی کون“ کے عنوان سے ان کا پورٹریٹ ہے جس کے بنانے میں 14 رنگوں کی 3500 لپ اسٹکس استعمال ہوئیں۔

لیلیٰ کی شادی ڈاکٹر فیاض راشد سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے بدر اور بشیر ہیں۔ ان کا گھرانا عمان میں مقیم ہے۔

۔
(اس مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ کے مضامین، یو ٹیوب اور دستاویزی فلمز کی مدد لی گئی ہے۔ )

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے