ایران کی جانب سے پاکستان میں ’حملے‘ کا مبینہ ہدف بننے والی عسکریت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کیا ہے؟

3229f580-b4f2-11ee-8f07-bbfdfa890097.jpg

ایران کی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں ’سبزکوہ‘ میں رہائشی علاقے کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ پنجگور شہر سے اندازاً 90 کلومیٹر دور اور ایران کے سرحد کے قریب واقع ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے کی گئی اس ’غیرقانونی‘ فضائی حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین لڑکیاں زخمی ہوئی ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی بیان میں ایران کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے تاہم حملے کی نوعیت، یعنی آیا اس حملے میں میزائل داغے گئے یا ڈرون حملہ کیا گیا، کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے
ایران کی جانب سے اس واقعے پر اب تک کوئی باضابطہ یا سرکاری سطح پر ردعمل نہیں دیا گیا ہے تاہم ایران کی نیم سرکاری اور پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ نیوز ایجنسی ’تسنیم نیوز‘ کے مطابق پاکستان میں جیش العدل نامی عسکریت پسند گروہ کے دو اہم ٹھکانوں کو میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کا مرکزی ہدف پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کوہ سبز کا علاقہ تھا، جو پاکستان میں جیش العدل کے عسکریت پسندوں کا سب سے بڑے مرکز قرار دیا جاتا ہے۔

کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی نے سبز کوہ میں میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس علاقے میں یہ میزائل گرے ہیں وہ آبادی والا علاقہ ہے جبکہ نقصان کی مزید تفصیلات اکھٹی کی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ ایران کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گذشتہ تین روز کے دوران سرحد پار کیا جانے والا یہ تیسرا میزائل حملہ ہے۔ پیر (15 جنوری) کو پاسدارانِ انقلاب نے عراق کے کرد علاقے اربی پر 11 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور یہ دعویٰ کیا تھا عراق میں اسرائیلی اہداف (موساد کے اڈوں) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسی طرح پیر ہی کے دن پاسداران انقلاب نے شام پر میزائل حملہ کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس نے وہاں شدت پسند گروہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں۔

جیش العدل کیا ہے؟

’جیش العدل‘ تنظیم ایک مسلح عسکریت پسند گروہ ہے جو ایرانی حکومت کا مخالف ہے۔ یہ تنظیم خود کو ’انصاف اور مساوات کی فوج‘ اور سنی تنظیم کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ یہ گروہ خود کو ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ’سُنی حقوق کا محافظ‘ قرار دیتا ہے۔

سنی بلوچ ملیشیاؤں پر مشتمل ’جیش العدل‘ نامی تنظیم کا قیام سنہ 2009 میں ایران کی جانب سے عسکریت پسند گروہ ’جند اللہ‘ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ’ملک و قوم کے خلاف کام کرنے‘ کے الزام میں گرفتار اور پھانسی دینے کے چند ماہ بعد بنائی گئی تھی۔

عبدالمالک ریگی کو ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں بم دھماکے کرنے، ایرانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے اور برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات کے تحت پھانسی دی گئی تھی۔

ریگی کی گرفتاری کے بعد ایران میں تعینات اس وقت کے پاکستانی سفارتکار محمد عباسی نے کہا تھا کہ ایران کو انتہائی مطلوب عسکریت پسند اور جنداللہ کے سابق سربراہ عبدلمالک ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریگی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دبئی سے کرغزستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

دوسری جانب امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جنس کے مطابق ’جیش العدل‘ نامی شدت پسند تنظیم (جس کا ماضی کا نام ’جنداللہ‘ ہے) سنہ 2005 میں اُس وقت کے صدر احمدی نژاد پر حملے سمیت ایران میں متعدد دھماکوں اور حملوں میں ملوث رہی ہے اور اس تنظیم کی جانب سے یہ کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان کے سرحدی صوبے چار باہ اور زاہدان میں کی گئی ہیں۔

اپنی تشکیل کے ابتدائی برسوں میں شام میں ایران کی ’مداخلت‘ جیسے اقدام کی مخالفت کو جند اللہ کی پالیسیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ سنہ 2012 میں اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے ’جیش العدل‘ رکھا ہے۔

گذشتہ برسوں کے دوران اس گروہ نے ایران کی فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسلح اور خونریز جھڑپیں کی ہیں اور جنوب مشرقی ایران کے سرحدی علاقوں میں کئی مسلح حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ایران کی حکومت ’جیش العدل‘ کو ’دہشت گرد گروہ‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک سمجھتی ہے اور اسے ’جیش الظلم‘ کہتی ہے۔

ایران کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کا قتل اور ایرانی سرحدی محافظوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کا اغوا اس گروہ کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔

زاہدان کے معروف امام مولوی عبدالحمید نے ہمیشہ اس گروہ کی طرف سے ایرانی سرحدی محافظوں پر حملوں اور ان کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور ہر حال ہی میں چند مغویوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اُنھوں نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائیاں ’سیستان اور بلوچستان کے علاقے کے لیے نقصان دہ ہیں‘، اس لیے اس نوعیت کے حملے بند کیے جائیں۔

سنہ 2002 میں جند اللہ کے قیام کے بعد سے اس تنظیم نے بارہا ایران میں مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان میں سے ایک سب سے خونریز واقعہ سنہ 2008 کے صدارتی انتخابات کے موقع پر، زاہدان میں شیعہ مساجد میں سے ایک میں بم دھماکہ تھا جس میں 25 افراد ہلاک اور 120 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری جند اللہ نے قبول کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

جیش النصر: یرغمالیوں کی پھانسی پر ’اختلاف؟‘

عبدالرؤف ریگی (جنداللہ گروپ کے بانی سربراہ عبدالمالک ریگی کے بھائی) نے 2013 کے موسم گرما میں جیش العدل گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ’جیش النصر‘ کی شکل میں ایرانی حکومت کے خلاف اپنی مسلح سرگرمیاں کا آغاز کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق ایک ایرانی یرغمالی کو پھانسی دینے پر اس گروپ کے جنگجوؤں کے درمیان تنازع پیدا ہونے کے بعد عبدالرؤف ریگی نے جیش العدل گروپ کو چھوڑ کر جیش النصر گروپ بنایا تھا۔

عبدالرؤف ریگی مبینہ طور پر ستمبر 2013 میں ہلاک کر دیے گئے تھے اور اس وقت ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسیوں بشمول ارنا، فارس اور العالم نے جیش النصر کے رہنما عبدالرؤف ریگی اور اُن کے بھتیجے ابوبکر ریگی کی ہلاکت کو اس گروہ کے ایک ’اندرونی جھگڑے‘ کے طور رپورٹ کیا تھا۔

سنہ 2016 میں ’جیش العدل‘ نے ایک اعلان کیا تھا کہ ’جیش النصر‘ کے جنگجوؤں کو ’جیش العدل‘میں ضم کر دیا گیا ہے اور یہ گروہ عملی طور پر تحلیل ہو چکا ہے۔

پاکستان، ایران: حالیہ کشیدگی کے واقعات

گذشتہ ماہ ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایک پولیس سٹیشن پر رات گئے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 11 ایرانی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اس وقت خبر دی تھی کہ ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرحدوں میں اڈے قائم کرنے سے روکے۔

ایرانی خبر رساں ادارے نے کہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’حملہ آور پاکستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔‘

اس واقعے کے بعد پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں دہشت گردوں کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایران کے ساتھ پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

اس سے قبل بھی ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں، جن میں گذشتہ سال 23 جولائی کا حملہ بھی شامل ہے جس میں چار ایرانی پولیس اہلکار گشت کے دوران مارے گئے تھے۔ یہ اس صوبے میں فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکاروں اور چار حملہ آوروں کے مارے جانے کے دو ہفتے بعد پیش آیا تھا اور جس کی ذمہ داری جیش العدل نے لی تھی۔

سبز کوہ: ایرانی فورسز نے بلوچستان میں کس علاقے کو نشانہ بنایا؟

نامہ نگار  مطابق پنجگور انتظامیہ کے اہلکار نے انھیں بتایا کہ بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور میں ایرانی فورسز نے جس علاقے کو نشانہ بنایا ہے اس کا نام سبز کوہ ہے۔

اہلکار کے مطابق اس علاقے کو مقامی لوگ کوہِ سبز کہتے ہیں لیکن سرکاری ریکارڈ میں اس کا نام سبز کوہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ ایرانی سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان معروف گزرگاہ چیدگی سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک دشوار گزار علاقہ ہے اور یہ پہاڑی اور صحرائی دونوں علاقوں پر مشتمل ہے۔

پنجگور انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق اس علاقے میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں جو کہ زیادہ تر مال مویشی پالتے ہیں۔ اہلکار نے بتایا کہ ضلع پنجگور کے ہیڈکوارٹر پنجگور سے کوہ سبز مغرب میں 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

پنجگور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں اندازاً 550 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحد مغرب میں ایران سے لگتی ہے اور یہ بلوچستان کی ان پانچ اضلاع کے وسط میں واقع ہے جن کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔

چار دیگر اضلاع جن کی سرحدیں ایران سے لگتی ہیں ان میں چاغی، واشک، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔ ایران اور ان اضلاع کے درمیان سرحدی علاقے دشوار گزار علاقوں پر مشتمل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے