’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘
تیز رفتاری سے بدلتی دنیا کی سیاست پر نظر رکھنا بلکہ اس میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر سرگرم حصہ لینا نہ صرف وقت کا تقاضا ہے بلکہ کسی حد تک بقا کا مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ سیاست کے بارے میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ اس میں کوئی بات قطعی نہیں ہوتی، یعنی کل کے دشمن آج کے دوست بھی بن سکتے ہیں۔
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو پچھلے کچھ عرصے میں جنوبی ایشیا کے خطے کے بڑے ملک بھارت پر بہت سے ’’اسلامی ممالک‘‘ کی نوازشیں اور غیر معمولی محبت صاف دکھائی دے گی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہوں تو ان کے استقبال اور آؤ بھگت میں غیرمعمولی گرمجوشی ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ پلکیں بچھائی جاتی ہیں اور مندروں کے افتتاح سے لے کر سرکاری اعزازات تک سب کچھ مودی جی پر نچھاور کیا جاتا ہے
گزشتہ سال اکتوبر کی 7 تاریخ فلسطینیوں کےلیے قیامت خیز ثابت ہوئی اور اسرائیلی حملوں نے بستیوں کی بستیاں مکینوں سمیت تباہ کردیں، لیکن عالمی ضمیر تو چھوڑیے، مسلم اُمہ نام کی چیز بھی ڈھونڈے سے نہیں ملی۔ قتل وغارت گری اپنی جگہ؛ لیکن زندگی تو چلتی رہتی ہے ناں! شاید اسی وجہ سے سعودی عرب میں فلمی میلے اور ثقافتی پروگرامز پوری آب و تاب کے ساتھ منعقد کرنا مجبوری ٹھہرے۔
بات یہیں تک رہتی تو گوارا تھا لیکن اسی دوران ایک ایسی پیش رفت سامنے آئی جس نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا اور وہ تھا بھارت کی اقلیتی امور کی وزیر اور ہندوتوا کی کٹر حامی سمرتی ایرانی کا مدینہ منورہ کا دورہ۔
وزیر محترمہ نے بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریبی علاقے میں کھڑے ہو کر اپنی تصاویر شیئر کیں اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مسجد قبا کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔
بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سمرتی ایرانی کی اولین وجہ شہرت ساس، بہو اور گھریلو سازشوں کی بھرمار سے مزین ٹی وی سوپ ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ میں بہو کا کردار تھا۔ سمرتی ایرانی نے مسلمانوں اور پاکستان کی دشمن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کندھوں پر سوار ہوکر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور آج وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی حلقے کی طاقتور ترین وزیر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ بھارتی وفد نے سمرتی ایرانی کی قیادت میں سعودی عرب اور مدینہ منورہ کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ عالیشان مندر کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور اس کے افتتاح کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ بالی ووڈ کے اداکاروں سے لے کر دنیا کی امیر ترین کاروباری شخصیات سمیت سب مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے، جس کے مہمان خصوصی بھارتی وزیراعظم ہوں گے۔ بابری مسجد کو 1992 میں ہندو انتہاپسند غنڈوں نے شہید کردیا تھا اور نریندر مودی مسجد کی شہادت اور مندر کی تعمیر کی مہم میں پیش پیش تھے۔
ویسے سمرتی ایرانی کو ایک بات کا کریڈٹ تو دینا پڑے گا کہ انہوں نے کبھی بھی بھارتی مسلمانوں اور اسلام اور پاکستان سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ہندوتوا ذہنیت کا اظہار کیا ہے۔
اب دوبارہ لوٹتے ہیں حالات حاضرہ کی جانب۔ تو جناب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سمرتی ایرانی مدینہ منورہ چلی گئی تو کون سی قیامت آگئی؟ مسجد نبوی یا حرم شریف کے اندر تو نہیں گئی ناں۔ غیر ملکیوں کو اجازت دے دی گئی ہے۔
یقیناً کچھ چیزیں اخلاقی یا قانونی طور پر جائز ہوتی ہیں لیکن مدینہ منورہ میں کھڑے ہوکر سمرتی ایرانی جیسی متعصب عورت کا تصاویر بنوانا ہرگز اتنا سادہ معاملہ نہیں۔ یہ دورہ اور اس کی ٹائمنگ آنے والے وقت میں گہرے نتائج پیدا کریں گے۔
سوشل میڈیا پر سمرتی ایرانی کی وائرل تصاویر پر زیادہ تر بھارتی صارفین نے خوشی کا اظہار کیا اور کچھ نے اسے ’’ہندو عورت‘‘ کی فتح قرار دے ڈالا۔ کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ بغیر سر ڈھانپے اپنے مخصوص لباس ساڑھی میں ملبوس سمرتی ایرانی کا مدینے میں کھڑے ہو کر تصاویر بنوانا بڑا کارنامہ اور بھارت کی سفارتی کامیابی ہے۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے طنز کے طور پر امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی کسی اسلامی ملک کے دورے کی تصویر شیئر کی، جس میں وہ اسکارف سے سر ڈھانپے ہوئے کھڑی تھیں۔
بہت سے افراد کا یہ سوال بھی تھا کہ سمرتی ایرانی سمیت بھارتی وفد کو سرکاری سطح پر آخر مدینہ کا ہی دورہ کروانا کیوں ضروری تھا؟
مجموعی طورپر جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ مسلمان ممالک کی حکومتوں کی پالیسیاں اب مزید ’’لبرل‘‘ ہوچکی ہیں اور عملاً مسلم امہ جیسی کوئی چیز اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا اسلامو فوبیا جہاں عام مسلمانوں کی زندگی مشکل بنارہا ہے وہیں مسلمان ممالک کی جانب سے مسلمان مخالف قوتوں کے لیے نرم گوشہ اور گرم جوشی کیا گل کھلائے گی، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
کالم نگار :-
آصفہ ادریس