تحریک انصاف کے لیے تین نکات

336571-921576364.jpg

پاکستان تحریک انصاف سکڑتے سکڑتے اب آزاد ہو چکی ہے۔ بلا اور بلے باز دونوں منظرعام سے ہٹ چکے ہیں لیکن تحریک انصاف کے نووارد رہنماؤں کو ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہو پا رہا کہ وہ غلطی پر غلطی کر رہے ہیں۔

بلے کا نشان کھونے کے بعد تحریک انصاف نے کھل کر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی۔ وہی قاضی فائز عیسیٰ جنہیں تاحیات نااہلی اور پرویز مشرف کیس فیصلوں کے بعد، وہی حلقےسراہ رہے تھے، جو آج ان کی ہتک میں پیش پیش ہیں۔

ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اب جبکہ انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں، تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات میں اصلاح کا ایک موقع دیا جا سکتا تھا لیکن ایسا کرنا صرف سپریم کورٹ کا اختیار تھا اور ایسے فیصلے زبردستی نہیں لیے جا سکتے بلکہ سادگی سے اپنی غلطی تسلیم کر کے ایسا کچھ ممکن ہوا کرتا ہے۔

تحریک انصاف کے کسی وکیل کی بنیادی سوالات کا جواب دینے کے لیے تیاری تک نہیں تھی۔ 2021 سے مسلسل آپ انٹرا پارٹی انتخابات کو ٹالتے رہے۔ آپ کو آخری موقع بھی ملا اور ایسے وقت میں جب آپ کو اندازہ تھا کہ اس بار موقع ملتے ہی تاک میں بیٹھے آپ سے تگڑے کھلاڑی یہ بلا اڑا لے جائیں گے، آپ نے پھر بھی آ بیل مجھے مار کے مصداق آنکھیں بند کر کے متنازع انتخابات کروائے۔

وہ انتخابات، جس کے امیدواروں نے کیش فیس جمع کروائی، پھر اپنا مقدمہ ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر لڑا، اکبر ایس بابر کو ہزاروں گالیاں پڑواتے رہے، لیکن اس سے عدالت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکا۔

انہیں پارٹی کی ممبرشپ سے کب فارغ کیا گیا؟ کوئی پریس ریلیز، کوئی ثبوت آپ دینے میں ناکام رہے۔ وہ اکبر ایس بابر جو گذشتہ کئی برسوں سے تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ کیس اور پھر انٹرا پارٹی انتخابات میں تن تنہا تگنی کا ناچ نچواتے رہے، اپنی ممبر شپ کا کیس تک عدالتوں میں لڑتے رہے، کم از کم ان کی ممبرشپ کے بارے میں دستاویزات سے اتنے سینیئر وکلا کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟
یہی وکیل فیصلے سے پہلے بلند و بالا دعویٰ کرتے رہے کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے رکن ہی نہیں تو انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ لیکن سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے وکلا کی براہ راست نشر ہونے والی کارکردگی نے بہت سارے سوال اٹھا دیے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ، اس کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا مقدمہ عدالت پر تقریباً عدم اعتماد کر کے واپس لے لیا گیا۔

اب جبکہ پانی تقریباً سر سے گزر چکا ہے، تحریک انصاف کو مزید نقصان سے بچنے کے لیے تین باتیں ذہن نشین کرنی ہوں گی۔

ایک تو یہ کہ مقدمات عدلیہ میں لڑے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر نہیں اور عدالت میں دستاویز/ ثبوت چلتے ہیں، کوئی مقبول یا پاپولسٹ بیانیہ نہیں۔
دوسری بات یہ کہ اب جب انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں تو مزاحمتی سیاست پس پشت ڈال کر انتخابی سیاست کے تقاضوں پر توجہ مرکوز کریں۔ مریم نواز کا پہلا پرجوش جلسہ اور بلاول بھٹو کے جلسوں پر نظر رکھیں، انتخابات ایکس (ٹوئٹر) پر نہیں میدان میں ہونے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں سے ابھی سے عہد و پیمان کر لیں، ورنہ تو یہ لکھ کر لے لیں کہ صرف قومی اسمبلی میں دو درجن سے زیادہ لوگ جیتنے کی صورت دوسری طرف پرواز کا وعدہ ابھی سے کر چکے ہیں۔

’آٹھ فروری کو عام انتخابات ہونے ہیں، جن میں ایک جماعت کے گلے نو مئی ایسا پڑ چکا ہے کہ شاید ہی ان کے لیے 10 مئی کا سورج کبھی چڑھ پائے۔

انہی سطور میں بانی تحریک انصاف کو نوشتہ دیوار پڑھ کر بار بار سناتے رہے، تحریک انصاف کے دوستوں کے کان بھی برابر بھرتے رہے کہ آپ کھائی میں تو گر ہی چکے ہیں لیکن اب کھودنا تو بند کر دیں؟ لیکن ان کی کون سنتا، وہ تو بیچارے آخری بال تک ہم سے پوچھتے رہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟

جواباً دہائی یہی دیتے رہے کہ امپائر کے غیرجانبدار ہونے کے بعد تماشائی تک بدل چکے ہیں اور اب آپ کی بہترین کور ڈرائیو کو بھی داد نہیں ملنی، لہٰذا نوشتہ دیوار یہی ہے کہ بلا بغل میں دبا کر چلتے بنیں اور اگلے ورلڈ کپ کی تیاری پکڑیں، کیونکہ جن تگڑی ٹیموں کو آپ کے لیے میدان سے باہر نکالا گیا، وہ ٹیمیں اب بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتاری جا چکی ہیں۔

امپائر اور تماشائی تک اپنے نہیں رہے تو بہتری اسی میں ہے کہ اپنا بلا اور سازوسامان لے کر اگلی باری کا انتظار کریں۔
تحریک انصاف کو بھی اب یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی کہ وہ دیوار سے ٹکریں مار مار کر اپنا اتنا نقصان کر چکی ہے کہ اس وقت اٹھنے کے قابل نہیں رہی، اب جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان کا مداوا ہونا چاہیے نہ کہ مزید غلطیاں۔

ویسے بھی وہ سیاسی جماعت ریاست سے نہیں لڑ سکتی، جس کو بنایا اور چلایا ہی خود مقتدرہ نے ہو۔

اس وقت پی ٹی آئی مکمل طور پر ہائی جیک ہو چکی ہے۔ علی محمد خان جیسے پارٹی کے وفادار سیاسی چہروں کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا، کچھ وکلا حضرات کی لاٹری نکل آئی اور ساتھ میں بیرون ملک بیٹھے وی لاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی بھی، جو پارٹی کی حمایت میں صرف اپنی پروفائل تو بنا رہے ہیں لیکن پارٹی کا ستیاناس کر کے۔‘

اب بھی وقت ہے کہ نووارد وکلا کی جگہ اگر عمران خان پارٹی کے کسی سیاسی چہرے کو سامنے لائیں تو معاملات مزید بگڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ اگر کسی وکیل کو ہی آگے لانا ہے تو حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر جیسی شخصیات موجود ہیں، جن کی پارٹی سے وفاداری میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

ورنہ اگلی تحریر تک تحریک انصاف کے سکڑنے کا عمل رکنا تو دور کی بات اس میں مزید تیزی آئے گی اور سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا کہ بیرسٹر گوہر ایک مقدمہ لڑنے کا اعلان کریں گے، شیر افضل مروت کہیں گے کہ خان نے تو ایسا کرنے کو نہیں کہا، یہ دونوں آپس میں دست و گریباں ہوں گے اور لطیف کھوسہ مقدمہ واپس لینے کا اعلان کر دیں گے۔

 

کالم نگار :-
عادل شاہزیب

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے