مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران انڈین وزیر خارجہ ایران کیوں جا رہے ہیں؟

34d47e40-b290-11ee-bc2f-cb5579b90709.jpg

یمن میں انصار اللہ پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے دوران درمیان خبر آئی ہے کہ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران کا دورہ کرنے والے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ایس جے شنکر 15 جنوری کو ایران کا دورہ کریں گے اور ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات کریں گے۔

ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

ایک طرف اسرائیل بین الاقوامی اپیلوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے تو دوسری جانب شمال میں لبنان کی سرحد پر حزب اللہ کے ساتھ اس کی جھڑپیں بھی جاری ہیں۔
اسی دوران امریکہ اور برطانیہ نے انصار اللہ کے خلاف حملے کیے ہیں جو بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔

امریکی اور برطانوی لڑاکا طیاروں نے یمن میں انصار اللہ کے 60 سے زائد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے بعد انصار اللہ کے ترجمان نے کہا کہ ’حملہ کرنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘

اسی دوران یہ خبر بھی آئی کہ ایران نے خلیج عمان میں ایک امریکی آئل ٹینکر کو پکڑ لیا۔

یہ تمام چیزیں ایران سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ اس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حماس، حزب اللہ اور انصار اللہ کو نہ صرف مالی اور فوجی مدد فراہم کرتا ہے بلکہ انھیں اس کی ہدایات پر کارروائیاں  کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی سفارت کار کرس لو نے کھل کر ایران کو انصار اللہ کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا

بلنکن اور جے شنکر کی بات چیت

مشرق وسطیٰ میں مسلسل خطرہ ہے کہ جنگ کا دائرہ کسی بھی وقت بڑھ سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ صورتحال قابو سے باہر نہ ہو جائے، اسرائیل حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن چار مرتبہ اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔

دریں اثنا جمعرات کو انھوں نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے فون پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں بحیرہ احمر اور مغربی ایشیا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ایس جے شنکر نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اپنا بیان پوسٹ کیا تھا۔

ایران کے دورے کا مقصد

اس کے بعد خبر آئی کہ ایس جے شنکر ایران جائیں گے اور پھر یوگنڈا میں 19 ویں نان الائنسڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ایس جے شنکر کے دورہ ایران کا مقصد کیا ہوگا اور کن مسائل پر بات چیت کی جائے گی اس کو لے کر کئی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

انڈیا اور ایران کے درمیان دو طرفہ سفارتی اور تجارتی تعلقات اور معاملات ہیں جن پر بات چیت ہونا فطری ہے۔ ان میں شمال جنوب تجارتی راہداری اور چابہار بندرگاہ نمایاں ہیں۔

لیکن ایس جے شنکر کے اس اچانک مجوزہ دورے کو ان کے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے درمیان ہونے والی بات چیت سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ انڈین وزیر خارجہ امریکہ کا پیغام لے کر ایران جا رہے ہوں۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے سینٹر فار ویسٹ ایشیا سٹڈیز کے پروفیسر اشونی مہاپاترا کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت کسی اور محاذ پر جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ ایسے میں ممکن ہے کہ وہ انڈیا کے ذریعے حالات کو پرامن کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یقینا امریکہ نے انصار اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے، لیکن امریکہ یہاں بڑے پیمانے پر تنازع نہیں چاہتا۔ سال 2016 میں یمن میں اس کا تجربہ بھی اتنا اچھا نہیں رہا، اس لیے وہ خود بھی براہ راست ملوث نہیں ہے۔ امریکہ رواں برس کسی تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتا کیونکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔‘

کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی اقدام

انصار اللہ نے حماس کی حمایت میں اسرائیل کی طرف جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اب تک وہ بحیرہ احمر اور باب المندب میں کئی تجارتی جہازوں کو ڈرون اور راکٹوں سے نشانہ بنا چکے ہیں۔

جس کی وجہ سے کئی تیل اور شپنگ کمپنیوں کو اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑا ہے۔ بحیرہ احمر سے انخلا کی وجہ سے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے گزرنے والی اشیا اور تیل کی قیمتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔

پروفیسر اشونی مہاپاترا کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر کی صورتحال دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ ساتھ انڈیا کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا سمیت تقریباً تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ سمندری راستے محفوظ رہیں اور یہاں کسی قسم کے حملے نہیں ہونے چاہیں، اس لیے شاید انڈیا کے ذریعے ایران کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جائے گی کہ ’امریکہ اس معاملے کو بڑھانے کے لیے تیار نہیں۔ چونکہ ایران انصار اللہ اور حزب اللہ وغیرہ کا حامی ہے اس لیے شاید ایک اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے کہ انصار اللہ کے حملوں کو محدود رکھا جائے۔‘

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا بھی خیال ہے کہ ایس جے شنکر کے دورے کے دوران حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ اور بحیرہ احمر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا جو کچھ لبنان میں ہونے کا خدشہ ہے (حزب اللہ کے ساتھ تصادم) اس سے پورے خطے میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔

آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ’اس سب میں ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ ایران کو نہ صرف روس اور چین کی حمایت حاصل ہے، بلکہ وہ خود بھی کافی طاقتور ہے۔ وہ عراق میں موجود ہے، شام میں بشار الاسد اس کا اتحادی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس جارحانہ ہیں، وہ ان سب کو دور سے کنٹرول کرتے ہیں، اگر حالات کشیدہ ہوتے ہیں تو اس سے ہمارے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال اس سطح پر ہے جہاں کوئی بھی ملک نہیں چاہے گا کہ یہ خراب ہو اور ہر کسی کے پاس اپنی اپنی وجوہات ہیں۔

پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ’اتنے دن گزرنے کے بعد بھی اسرائیل غزہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کرسکا ہے۔ پھر امریکہ نے اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع نہ کرے۔ ساتھ ہی یوکرین میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کچھ خاص حاصل نہیں کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اور اس کے ساتھی مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں تیزی سے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہاں بھی کچھ خاص نہیں ہوا۔

پروفیسر اشونی مہاپاترا کا کہنا ہے کہ امریکہ کو مجبوراً یہاں ملوث کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ انصار اللہ کے پاس محدود صلاحیتیں ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے حملوں سے شپنگ کمپنیوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ دریں اثنا روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکہ خطے میں تنازعات میں الجھا رہے، تاکہ اس کی توجہ یوکرین سے ہٹائی جا سکے اور’تائیوان کی طرف مت جائے جبکہ امریکہ یہاں پھنسنے پر مجبور ہے۔‘

ایسے میں امریکہ چاہتا ہے کہ سفارتی ذرائع سے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی جائے۔

’انڈیا اپنے مفادات کے بحران میں ہے‘

مغربی ایشیا میں کشیدگی کی وجہ کچھ بھی ہو، اس کا اثر انڈیا پر ضرور پڑے گا۔ تین دسمبر کو ایم وی چیم پلوٹو نامی لائبیریا کے تجارتی جہاز کو ڈرون حملے سے نشانہ بنایا گیا۔

یہ جہاز منگلور آ رہا تھا اور اس کے عملے کے 22 ارکان میں سے 21 انڈین تھے۔ اس کے بعد بحیرہ احمر میں گبون کے آئل ٹینکر ایم وی سائی بابا پر بھی ڈرون سے حملہ کیا گیا۔ اس کے عملے میں 25 انڈین تھے۔

انڈین بحریہ نے کہا ہے کہ انڈیا کے خصوصی اقتصادی زون میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔

پروفیسر اشونی موہاپاترا کا کہنا ہے کہ یہ پورا علاقہ بہت اہم ہے اور ممبئی اور گجرات سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اور پھر موجودہ حالات میں انڈیا آنے والے جہازوں کو طویل چکر لگانا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کے لیے وسطی ایشیا اور روس کا راستہ صرف ایران سے گزرتا ہے۔ حال ہی میں انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر روس گئے تھے۔ وہاں بین الاقوامی شمالی-جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی۔

انڈیا، ایران اور روس نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی شمالی-جنوبی کوریڈور کی تعمیر پر اتفاق کیا تھا۔ اس سے انڈیا، ایران، روس، وسطی ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔

ایران کی چابہار بندرگاہ اس منصوبے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کوریڈور کے تحت اس بندرگاہ کو ریل کے ذریعے وسطی ایشیا اور روس سے جوڑا جانا ہے۔ لیکن اس پورے منصوبے کے مستقبل پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے جب گذشتہ سال دہلی میں منعقدہ G20 کانفرنس میں ایک نیا تجارتی راستہ بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اس نئے تجارتی راستے کو انڈیا-یورپ-مڈل ایسٹ کوریڈور کا نام دیا گیا۔ اس میں انڈیا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن، اسرائیل اور یونان شامل ہیں۔

پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں منعقدہ G20 کانفرنس کے دوران جس اقتصادی راہداری کا اعلان کیا گیا تھا، اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ کیونکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں اس وقت کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اس صورتحال میں ایران بچ گیا لیکن بڑی حد تک انڈیا امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، لیکن وہ ایران، روس اور چین کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں انڈیا توازن قائم کرنا چاہے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مسلسل بدلتی ہوئی صورت حال کے درمیان انڈین وزارت خارجہ میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ جنگ مزید بڑھ سکتی ہے۔ اگر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے اور اس کا دائرہ عراق اور پھر ایران تک پہنچ جاتا ہے، تو پھر خطرہ ہے کہ اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ ایران اور انڈیا دونوں کے لیے نہ صرف تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ خلیجی ممالک میں رہنے والے 90 لاکھ ہندوستانی بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں پائیں گے۔‘

کیا ایران انڈیا کی بات سنے گا؟

اس کشیدہ اور پیچیدہ صورتحال میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا انڈیا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان ایک اچھا ثالث بن کر ابھر سکتا ہے؟

موجودہ حالات میں ایس جے شنکر کے دورے سے کیا توقع کی جا سکتی ہے اس بارے میں پروفیسر اشونی مہاپاترا کہتے ہیں کہ ’جب ایران کے جوہری پروگرام پر تنازعہ کھڑا ہوا تو یورپی یونین، خاص طور پر جرمنی اور فرانس نے ثالث کا کردار ادا کیا، اس کے بعد جو معاہدہ ہوا تھا اسے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے مسترد کر دیا گیا تھا۔ ایران کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن امریکہ اس سے بات نہیں کرے گا۔ ایران کے انڈیا کے ساتھ بھی تاریخی تعلقات ہیں۔اور پھر ان دنوں انڈیا کی سفارتی حیثیت بڑھ گئی ہے کیونکہ نئی اقتصادی راہداری ’یورپ-مڈل ایسٹ کوریڈور کا اعلان انڈیا سے کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایران جانتا ہے کہ انڈیا اس وقت غیر جانبدار پوزیشن میں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کی داخلی اقتصادی صورتحال بھی اسے مزید تنازعات بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔

لیکن مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا خیال ہے کہ انڈیا اور ایران کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایران سفارتی طور پر بہت چالاک ہے۔ انڈیا کے ساتھ اس کے تاریخی تعلقات کی باتیں اب بے معنی ہو چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور روس کی طرح وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ انڈیا کو اب امریکہ کا اتحادی بن جانا چاہیے۔‘

وہ کھلے عام میڈیا پر اپنے بیان میں کہتا ہے کہ انڈیا جو کبھی غیر وابستہ تھا، اب امریکہ کے حکم پر چل رہا ہے۔

کیا انڈیا کی باتیں ایران پر اثر کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ’ایران جانتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس کا مبینہ کردار ہے ایسے میں جے شنکر کے پاس اگر امریکہ کی طرف سے کوئی پیغام ہے تو صرف ایران ہی اسے سنے گا۔ انڈیا عراق کی طرح ثالث نہیں بن سکتا۔ ہم صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ علاقائی جنگ نہیں چاہتا۔

بے اعتمادی‘ کی فضا میں حل تلاش کرنا مشکل

ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالات پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی کوشش کتنی مؤثر ہو گی، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ کے قول و فعل میں فرق زیادہ واضح ہوگیا ہے، ایسی صورتحال میں ایران کے لیے کسی امریکی پیشکش پر یقین کرنا آسان نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے۔ جو بائیڈن نے اسرائیل سے جنگ بند کرنے کا کہا لیکن اسلحہ اور مدد جاری رکھی۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی نہیں چاہتا لیکن یمن میں انصار اللہ پر حملہ کر دیتا ہے۔ اسرائیل کو بتاتا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع نہ کرنا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر حزب اللہ لبنان کی سرحد سے پیچھے نہیں ہٹتی تو اسرائیل اپنے دفاع میں کچھ بھی کر سکتا ہے، ایران امریکہ کی اس دوہری پالیسی کو جانتا ہے۔

پروفیسر اشونی موہاپاترا کا کہنا ہے کہ ایران کو لگتا ہے کہ حالات اس کے حق میں ہیں اور وہ ان کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آج پوری دنیا کی رائے اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔ عالمی عدالت میں اس کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ پھر اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایران کے لیے ماحول سازگار ہے۔ وہ حزب اللہ جیسی تنظیموں کی حمایت کر رہا ہے۔ جسے وہ مزاحمت کا محور کہتے ہیں ان کے ذریعے وہ اپنا اثر و رسوخ جاری رکھ سکتا ہے۔‘

دوسری جانب اسرائیل بھی مسلسل کہہ رہا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی مہم اس وقت تک نہیں روکے گا جب تک وہ حماس کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر دیتا۔ ساتھ ہی انصار اللہ کہہ رہی ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ پر حملے بند نہیں کرتا، وہ جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکہ اور ایران نہ تو تنازع کو بڑھانے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی دونوں طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ صورت حال غیر یقینی بن سکتی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے