محمد حنیف کا کالم: زخمی بچہ، مغربی میڈیا اور دو ذرائع

335931-2110216363.jpeg

مغربی میڈیا عام طور پر اپنے آپ کو عالمی میڈیا کہتا ہے، ساری دنیا کو خبر اور رائے کا فرق بتاتا ہے۔ مغربی یونیورسٹیوں اور نیوز روموں میں سکھایا جاتا ہے کہ ہر خبر چھپنے یا نشر کرنے سے پہلے دو ذرائع سے تصدیق صحافت کا بنیادی اصول ہے۔

مغربی اداروں کے لیے کام کرنے والے ساتھی رپورٹر بتاتے ہیں کہ اگر وہ کسی بڑے واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہوں تو بھی ان کی خبر اس وقت تک قابل اشاعت نہیں سمجھی جاتی جب تک دو ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔

چند سال پہلے ایک مغربی جریدے کے لیے کراچی میں گرمی کی شدید لہر پر ایک کہانی لکھی، بیچ میں یہ بھی لکھ دیا کہ کراچی میں کوئی ایسے بس سٹاپ نہیں ہیں جہاں پر چھت ہو۔

میری مدیر نے گوگل میپ پر جا کر کراچی کے کچھ ایسے بس سٹاپ ڈھونڈ لیے جہاں پر ٹوٹی پھوٹی سی ہی چھت تھی۔ میں اپنی سُستی پر شرمسار ہوا اور اپنی مدیر کے ادارتی معیار کا قائل ہو گیا۔
س ہفتے دنیا میں سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ جنوبی افریقہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ تیار کر کے اقوام متحدہ کی عالمی عدالت میں پہنچا۔ ایک دن جنوبی افریقہ کو اپنا کیس پیش کرنا تھا، اگلے دن اسرائیل کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ اس سے آسان ایڈیٹوریل فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ عالمی عدالت میں کیس پے پوری دنیا کی نظریں لگی ہیں۔ دونوں دن، دونوں ملکوں کا موقف لوگوں تک پہنچنا چاہیے تھا۔

مغرب کے تقریباً تمام نشریاتی اداروں اور بڑے اخباروں نے جنوبی افریقہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد اور ان کے وکلا کے دلائل کو براہ راست نہیں دکھایا۔ اگلے دن اسرائیل اپنے دفاع کے لیے پیش ہوا تو ساری نشریات روک کر براہ راست کارروائی دکھائی گئی۔

کسی ادارے نے اپنے اس فیصلے کی وضاحت پیش نہیں کی۔ شاید انھیں یقین ہے کہ جدید صحافت اور اس کی اخلاقیات انہی کی ایجاد ہے اور وہ جب چاہیں نئے معیار ایجاد کر لیں۔

اس معاملے میں ان کا رویّہ اسرائیل کے دفاعی وکلا جیسا ہی تھا کہ تم ہم پر نسل کشی کا الزام لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہو، ہمارے پہلے سے دکھی دلوں کو اور دکھی کر رہے ہو۔ لیکن ہم جو کر رہے ہیں اس سے ہمیں روک کر تو دکھاؤ۔

مغربی دانشور ہم جیسے ملکوں کو بنانا ریپبلک اور ہماری عدالتوں کو کینگرو کورٹ کہتے ہیں لیکن میں نے کسی بڑی سے بڑی ڈکٹیٹرشپ کے بارے میں بھی یہ نہیں سنا کہ ایک میچ ہو رہا ہو، جب مخالف باری لے رہا ہو تو یہ تاثر دیا جائے کہ کونسا میچ اور جب اپنی ٹیم باری لینے آئے تو فوراً لائیو کوریج شروع کر دی جائے۔
عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ کے وکلا اور ان کے ساتھیوں سے مقدمہ سن کر مغربی تہذیب کے وارث یقیناً نیلسن منڈیلا کو یاد کر رہے ہوں گے، پچھتا بھی رہے ہوں گے کہ اسے جیل سے نکلنے ہی کیوں دیا تھا۔

جنوبی افریقہ کی آزادی کے بعد مغربی رہنماؤں نے نیلسن منڈیلا کو معصوم سا انکل بنانے کی کوشش کی تھی لیکن سفید بالوں میں وہ دہشت گرد ہی رہا۔ اب بھی اس پر الزام یہ ہی لگ رہا ہے کہ وہ اپنی قبر سے بھی جنوبی افریقہ کے وکیلوں کے ذریعے دہشتگردی کر رہا ہے۔

نیلسن منڈیلا کے روحانی بچوں نے ہمیں بتایا کہ ماضی کی نسل کشی کرنے والے اپنے ارادے کو بھی چھپاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کے دنیا کی نظر سے چھپا کر کریں۔

منڈیلا کے دہشتگرد وکیل نے عالمی عدالت کو بتایا کہ یہ تاریخ کی پہلی ’نسل کشی‘ ہے جس میں شکار ہونے والے اپنی موت کو لائیو سٹریم کر رہے ہیں اور ایسا کرنے والے نہ صرف اپنا ارادہ چھپانے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ کر کے بتا رہے ہیں، مقدس کتابوں کے حوالے دے کر بتا رہے ہیں کہ شیر خواروں کے قتل کا حکم ہے۔

اور مبینہ طور پر نسل کشی کرنے والی پہلی فوج ہے جو ٹک ٹاک پر لاشوں پر بھنگڑے ڈال رہی ہے۔ اگر نازی جرمنی اپنے گیس چیمبروں میں کیمرے لگا کر دنیا کو لائیو فیڈ دیتے تو بھی شاید مغربی میڈیا اپنے ایڈیٹوریل گائیڈ لائن کھول کر بیٹھ جاتا اور سوچتا کہ ظلم کس طرف سے ہو رہا ہے۔

غزہ میں ہسپتالوں میں شیرخواروں کو دفناتے، بچاتے طبی عملے نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے ڈبلیو سی این ایف ’زخمی بچہ جس کے خاندان میں سب مارے گئے۔‘

مغربی میڈیا ابھی تک وہ دو ذرائع ڈھونڈ رہا ہے جس سے بچے کی شناخت ہو سکے لیکن چونکہ ہم نے ماں باپ، چچا، خالو، چھوٹا بھائی، بڑا بھائی، گلی میں کھیلنے والے بچے سب مار دیے تو دو ذرائع کہاں سے لائیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے