انتخابی نشان آئینی حق ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی ہے، پشاور ہائیکورٹ
پشاور: ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ انتخابی نشان کے بنیادی حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس سے متعلق پشاور ہائی کورٹ نے وجوہات کے ساتھ اپنا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت کی 9 اور 10 جنوری کی کارروائی پر مبنی جسٹس ارشد علی کے تحریر کردہ 26 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت عدالت نے خود کو 2 سوالات تک محدود رکھا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ میں کیس قابل سماعت ہے؟ اور کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی پر فیصلے کا اختیار ہے؟۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انتخابات خیبرپختونخوا میں ہوئے اور الیکشن کمیشن صوبے میں بھی ہے۔ سپریم کورٹ فیصلوں کی روشنی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کیساتھ ساتھ پشاور ہائیکورٹ کے پاس بھی کیس سننے کا اختیار ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ سیاسی جماعت بنانا پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سازگار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ انتخابی نشان کے تحت الیکشن لڑنے کا حق بھی حاصل ہے۔ انتخابی نشان کے آئینی حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے۔ پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کیا جائے۔ پی ٹی آئی انتخابی نشان کی بھی حقدار ہے۔ تفصیلی فیصلہ مزید وجوہات اور وضاحت کے ساتھ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ عدالتی دائر اختیار پر تحریری فیصلے میں آیان علی اور اصغر حسین کیس کا سرپم کورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخات خیبر پختونخوا میں منعقد ہوئے۔ انٹرا پارٹی انتخابات صوبے میں منعقد ہونے پر ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کرنا سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے۔