ابھینندن: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟
27 فروری 2019 وہ دن تھا جب پاکستان کی فضائیہ نے انڈین جنگی طیارہ مار گرایا اور فائٹر پائلٹ وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو اپنی تحویل میں لے لیا جس سے حالیہ تاریخ میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور سرحدی کشیدگی ایک نئی بلندی کو جا پہنچی۔
27 فروری کے وہ واقعات اب ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہیں اور اس رات سے متعلق کچھ نئے دعوے سامنے آئے اور اس کی وجہ پاکستان میں اس وقت تعینات انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ کی کتاب ہے۔
جبکہ ان کے دعوؤں پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفننگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’بظاہر یہ کتاب فروری 2019 کے گرد انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ فروری 2019 میں دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا، سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب ’نیور گیو این انچ‘ میں یہاں تک کہا ہے کہ یہ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کا خدشہ تھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپریل 2019 کے دوران گجرات کے ایک جلسے میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ ’امریکہ نے پاکستان کو پائلٹ واپس کرنے کا کہا ورنہ مودی 12 میزائلوں کے ساتھ تیار تھے، یہ رات قتل کی رات ہونا تھی۔‘
بعد ازاں پاکستانی دفتر خارجہ نے نریندر مودی کے بیان کو ’غیر زمہ دارانہ اور جنگی جنون پر مبنی‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’بالا کوٹ مہم جوئی کا فوری اور موثر جواب، طیارے کو مار گرانا اور پائلٹ کی گرفتاری ہماری مسلح افواج کی تیاری، عزم اور صلاحیت کا واضح ثبوت ہے۔‘
انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو حراست میں لیے جانے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کے لیے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنا چاہتے تھے جس پر انڈیا نے ’کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔‘
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان حقیقی طور پر اس جھڑپ کی شدت میں اضافے سے ’خوفزدہ تھا۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ نے تاحال بی بی سی کو اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے تاہم دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اس ضمن میں ہفتہ وار پریس بریفننگ میں بتایا کہ پاکستان نے ابھینندن کی واپسی کے ذریعے تناؤ کم کرنے کے لیے ذمہ دارانہ رویہ دکھایا تھا جبکہ یہ کتاب ’فروری 2019 سے متعلق انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
27 فروری کو پس پردہ کیا ہوا؟
دونوں ممالک میں تازہ کشیدگی سال 2019 میں اس وقت سامنے آئی تھی جب انڈین فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے میں گولہ بارود گرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستانی سرزمین پر شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ’سرجیکل سٹرائیک‘ کی ہے۔
پاکستان نے اس کے جواب میں انڈین طیارہ مِگ 21 مار گرایا تھا اور ایک انڈین پائلٹ ابھینندن کو حراست میں لے لیا تھا جسے بعد ازاں ’کشیدگی کم کرنے کے لیے‘ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
27 فروری کا ذکر نئی دہلی میں واقع ’ایلیف پبلیکیشنز‘ کی طرف سے حال ہی میں شائع کی گئی کتاب میں بھی ملتا ہے جس میں اجے بساریہ پاکستان میں اپنے قیام کی روداد بیان کرتے ہیں۔
جب پلوامہ حملہ کے بعد انڈیا نے اپنی طرف سے فوجی کارروائیاں کی اس وقت وہ دہلی آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’میں 26 فروری کی صبح کو دہلی میں اس وقت بیدار ہوا جب سوشل میڈیا پر انڈیا کی طرف سے پاکستان میں بم گرائے جانے کے بارے میں باتیں جاری تھیں۔‘
اسلام آباد میں ان کے ایک ساتھی نے اس صبح آئی ایس پی آر کے ترجمان آصف غفور کا ایک ٹویٹ شیئر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’ایک انڈین لڑاکا طیارے نے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد بم گرایا ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اگلے دن جوابی کارروائی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے چار کلومیٹر کے اندر فوجی اہداف کے قریب گولہ بارود گرایا۔ بعد ازاں انڈین بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ 24 پاکستانی طیارے انڈین فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
27 فروری کو طیاروں کی اس ڈاگ فائٹ کے دوران انڈین فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھینندن کا طیارہ پاکستان کے ایک میزائل کا شکار ہو گیا۔ وہ ایل او سی سے سات کلومیٹر اندر گرے اور حراست میں لے لیے گئے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب ’نیور گیو این انچ‘ میں لکھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ دنیا کو صحیح طرح معلوم نہیں کہ فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان کی لڑائی جوہری جھڑپ میں بدل سکتی تھی۔‘
وہ اس وقت ویتنام میں تھے جب انھیں ’انڈین ہم منصب نے نیند سے جگایا، انھیں خدشہ تھا کہ پاکستان نے حملے کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دی ہے۔ انھوں نے بتایا انڈیا خود بھی جھڑپوں کی تیاریوں پر غور کر رہا تھا۔‘
مائیک پومپیو لکھتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے ’اصل رہنما‘ جنرل باجوہ سے رابطہ کیا جنھوں نے اس کی تردید کی مگر انھیں خدشہ تھا کہ ’انڈین جوہری ہتھیار تعینات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ لکھتے ہیں کہ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان نے ’پی فائیو‘ ممالک (یعنی امریکہ، انگلینڈ، فرانس، روس اور چین) کے سفارتکاروں کو طلب کیا
’ہمارے وزیر اعظم اس وقت دستیاب نہیں‘
انڈین سفارتکاراجے بساریہ کا اپنی کتاب میں یہ دعویٰ ہے کہ انڈین طیاروں کی پاکستان حدود میں سٹرائیک اور پاکستان کے جوابی ردعمل میں انڈین پائلٹ کو پکڑنے کے بعد ’سفارت کاروں کی نظر میں پاکستان حقیقی طور پر کشیدگی میں اضافے کے امکانات سے خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔‘
بساریہ نے اپنی کتاب میں اس بارے میں لکھا کہ ’جس وقت وہ میٹنگ جاری تھی، اس دوران پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے شام 5.45 بجے فوج کی طرف سے موصول ایک پیغام سنانے کے لیے بات چیت کو روک دیا۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کی جانب نو میزائل ’پوائنٹ‘ کر رکھے ہیں جو اس دن کسی بھی وقت داغے جا سکتے ہیں۔‘
بساریہ مزید لکھتے ہیں کہ ’تہمینہ جنجوعہ چاہتی تھیں کہ سفارتکار یہ بات اپنے ممالک کے رہنماؤں تک پہنچائیں اور انڈیا سے کہیں کہ وہ صورتحال کو مزید آگے نہ بڑھائے۔ اس کی وجہ سے ’پی فائیو‘ دارالحکومتوں، اسلام آباد اور نئی دہلی میں سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل مچ گئی!‘
وہ ایک ’پی فائیو‘ سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ان سفارت کاروں میں سے ایک نے کہا کہ پاکستان کو خود اپنے تحفظات کو براہ راست انڈیا تک پہنچانا چاہیے۔‘
بساریہ لکھتے ہیں کہ اس وقت انھیں اسلام آباد میں موجود انڈیا میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کا آدھی رات کو فون آیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنے کے خواہشمند ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے سینئیر حکام سے چیک کیا اور جواب دیا کہ ہمارے وزیر اعظم اس وقت دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر عمران خان کے کوئی ضروری پیغام پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ یقیناً مجھے دے سکتے ہیں۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد اس رات انھیں کال نہیں آئی۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ درین اثنا امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں نے انڈیا کو مطلع کیا کہ پاکستان اب کشیدگی کو کم کرنے، انڈیا کے ڈوزیئر پر عمل کرنے، اور دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ سفیروں نے انڈیا کو یہ بھی بتایا کہ ’پاکستان کے وزیر اعظم خود یہ اعلان کریں گے اور پائلٹ کو اگلے دن انڈیا واپس کر دیا جائے گا۔‘
انھوں نے لکھا کہ یکم مارچ کو انڈیا نے ورتھمان کی واپسی کے لیے طریقے تیار کرنا شروع کر دیا اور ’فیصلہ کیا کہ پاکستان سے کہا جائے کہ وہ پائلٹ کی واپسی کا میڈیا میں تماشا نہ بنائے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’(ہماری) ورتھمان کی بازیابی کے لیے انڈین ایئر فورس کا طیارہ بھیجنے کے لیے تیار تھی لیکن پاکستان نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انھیں شام پانچ بجے رہا کیا جانا تھا لیکن آخر کار رات نو بجے رہا کیا گیا۔‘
’یہ انڈیا کا فروری 2019 کے گرد افسانوی بیانیہ ہے‘
جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفننگ کے دوران پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’بظاہر یہ کتاب فروری 2019 کے گرد انڈیا کے افسانوی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
ان سے ایک صحافی کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اجے بساریہ نے یہ دعویٰ کیا کہ انڈیا نے اس وقت ایک پاکستانی وزیر اعظم کی کال لینے سے انکار کیا، اس پر وہ کیا کہنا چاہیں گی۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے جواباً کہا کہ ’انڈیا میں حکمرانوں نے پلوامہ واقعے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔۔۔ مسٹر بساریہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بالاکوٹ انڈیا کے لیے ایک فوجی ناکامی تھی۔ یہ انڈین مہم جوئی کی ایک مثال تھی جو ان کے لیے بُری طرح اور شرمناک حد تک غلط ثابت ہوئی کیونکہ انڈین طیارے مار گرائے گئے، اور ایک انڈین پائلٹ کو پاکستان نے حراست میں لے لیا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ پاکستان نے اس صورتحال کے دوران ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تاہم ’یہ افسوسناک ہے کہ ایک سفارتکار جبر اور طاقت کے استعمال کی بات کر رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ 28 فروری کو عمران خان نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں انڈیا کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو یکم مارچ کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایوان کو بتایا تھا کہ ’آج انڈیا نے پلوامہ کے بارے میں مراسلہ بھیجا ہے مگر اس سے پہلے انھوں نے حملہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘ انھوں نے ایوان کو بتایا تھا کہ ’میں نے کل بھی مودی سے بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس عمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ میں انڈیا کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مزید کوئی کارروائی نہ کریں کیونکہ ایسی صورت میں ہم بھی کارروائی پر مجبور ہوں گے۔‘