حماس کے پاس وہ چار ہتھیار جن کی مدد سے وہ اسرائیل کا مقابلہ کر رہا ہے

25e4cbd0-b0b3-11ee-82be-ffc0dc228a46.jpg

بی بی سی عربی کی فارنزک تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ عسکری گروہ حماس اسرائیل کے خلاف جنگ میں جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے۔ عسکری ماہرین کی رائے میں حماس کے زیرِ استعمال بعض ہتھیار ماضی میں اسرائیل کے خلاف اس کی جھڑپوں میں استعمال کیے گئے ہتھیاروں کے مقابلے جدید ہیں۔

سات اکتوبر کو حماس نے غزہ سے نکل کر اسرائیل پر حملہ کیا جس میں سینکڑوں راکٹ اور میزائل داغے گئے، دھماکہ خیز مواد سے لیس ڈرونز تعینات کیے گئے اور چھوٹے ہتھیاروں کی ایک نامعلوم تعداد استعمال میں لائی گئی۔

اس سے 1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی اور 240 سے زیادہ یرغمالیوں کو غزہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں زمینی آپریشن اور فضائی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس میں 23 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

بی بی سی عربی نے حماس اور اس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے ایسے چار ہتھیاروں کے استعمال کی نشاندہی کی ہے جو نہ صرف اس کی صلاحیت کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہتھیار ان تک کیسے پہنچے۔

اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا ہے کہ اس نے حماس کے آٹھ ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے تاہم اس حوالے سے شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔

برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشتگرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ اس نے اس الزام پر جواب نہیں دیا ہے۔

اسرائیل کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے دوران اس کے 187 فوجی مارے گئے ہیں۔
’یاسین 105‘ اینٹی ٹینک میزائل
اسرائیل کی زمینی کارروائی کے آغاز سے ’یاسین 105 ایم ایم‘ نامی ٹینک شکن میزائل ایسی کئی ویڈیوز میں موجود ہے جو القسام بریگیڈ کی جانب سے شیئر کی گئیں۔ یہ دیکھا گیا کہ اس نے غزہ میں اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کو نشانہ بنایا۔

میزائل کو شیخ احمد یاسین کا نام دیا گیا ہے جو حماس کی تحریک کے بانی تھے۔ اسے روسی ساختہ راکٹ پروپیلڈ گرینیڈ (آر پی جی) لانچر کی مدد سے فائر کیا جاتا ہے۔
مصری فوج کے سابق بریگیڈیر جنرل سمیر راغب نے کہا ہے کہ یاسین 105 کے دہرے ہتھیار کا ڈیزائن اہم اختراع ہے۔

ان کے مطابق پہلا دھماکہ خیز حملہ ٹینک کے آرمر کو نشانہ بناتا ہے۔ اس سے عارضی یا مکمل داخلہ مل جاتا ہے۔ دوسرا حملہ ٹینک کے اندر گھسنے کو یقینی بناتا ہے جس سے یہ ٹینک تباہ ہوتا ہے۔

برطانوی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر فلپ انگرام کا کہنا ہے کہ اس میزائل کی رینج 150 سے 500 ایم ایم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 300 میٹر فی سیکنڈ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس میزائل کے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے اسے چلانے میں مہارت درکار ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حماس جدید ہتھیار بنانے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اسرائیلی ٹینکوں میں میزائل روکنے کا نظام نصب ہے۔

تاہم ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ یاسین میزائل نے اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ بی بی سی عربی اس دعوے کی تصدیق نہیں کرسکا۔

عسکری ماہرین کا اندازہ ہے کہ حماس کے پاس کم از کم دو ہزار یاسین 105 میزائل ہیں جو کہ کافی بڑا ذخیرہ ہے۔

’ال آصف‘ آبی گولہ
اکتوبر کے اواخر میں حماس نے ایک ویڈیو ریلیز کی جس میں نئے ہتھیار ’ال آصف‘ ٹورپیڈو (آبی گولے) کی رونمائی کی گئی جو اس کے بقول سات اکتوبر کے حملے میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔

بی بی سی نیوز عربی نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو پہلے کہیں بھی آن لائن شائع نہیں کی گئی۔

ماہرین کے مطابق یہ ہتھیار بغیر عملے کے یا ریموٹلی آپریٹڈ زیرِ آب وہیکل ہے۔ اسے زیرِ آب آپریشنز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
مصری فوج کے سابق چیف آف سٹاف یاسین ہاشم نے اسے ’بغیر عملے کے زیرِ زمین گاڑی‘ کہا جو جزوی طور پر پانی کے نیچے رہتی ہے۔

انھوں نے زیرِ آب مشنز میں اس کی خوبیاں بیان کیں جن میں میپنگ، نگرانی، زیرِ آب چیزوں کی جانچ، ماحولیاتی مانیٹرنگ اور جنگی آپریشنز شامل ہیں۔

بریگیڈیر جنرل راغب کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار غزہ میں بنایا گیا۔ اس کے پرزوں میں کمپریسڈ گیس سلنڈر، انٹرنل کمبسچن انجن، کیمرے اور گائیڈنس انٹینا ایسی چیزوں سے حاصل ہوسکتے ہیں جن کی نقل و حرکت پر پابندی نہیں۔ جبکہ انھیں ری سائیکل مواد سے بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔

ان کے مطابق تھری ڈی پرنٹنگ کی صلاحیت رکھنے والی ورک شاپس ہی ایسے ہتھیار بنا سکتی ہیں۔
اگرچہ حماس کی ویڈیو میں ال آصف آبی گولے کو دکھایا گیا ہے تاہم اس کے مؤثر ہونے کے حوالے سے محدود شواہد ہیں۔

حماس نے اسے سات اکتوبر کے حملے میں استعمال کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس کے باوجود بی بی سی عربی اس کی آزادانہ تصدیق نہیں کرسکا کہ اسے استعمال میں لایا گیا اور آیا اس سے اسرائیلی فوج کو کوئی نقصان پہنچا۔

مئی 2021 میں اسرائیلی فوج نے ایک ویڈیو ریلیز کی اور سمندر کنارے فضائی حملے میں ’چھوٹی ریموٹ آبدوز‘ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس وقت اس ہتھیار کی کوئی تصاویر ظاہر نہیں کی گئی تھیں۔
شمالی کوریا کا ایف سیون آر پی جی
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی ویڈیوز میں ایف سیون آر پی جی کو نمایاں انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی افواج سے جھڑپوں میں بھی استعمال کیا گیا۔

یہ گرینیڈ لانچر شمالی کوریا سے آتا ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پروجیکٹائل گولے کے اگلے حصے پر سرخ رنگ ہے۔

بی بی سی عربی نے ایسی کئی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جس میں حماس کے جنگجو ایف سیون آر پی جی استعمال کر رہے ہیں۔
عزالدين القسام بریگیڈ نے جنگی کارروائیوں کی ویڈیو میں بھی اس ہتھیار کو دکھایا ہے۔

اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں ضبط کیے گئے اسلحے میں آئی ڈی ایف نے ایف سیون آر پی جی صحافیوں کو دکھائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسے حماس کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایف سیون آر پی جی کی خاص بات اس کے ری لوڈ کرنے میں کم وقت کا لگنا ہے اور اسے خاص طور پر ہیوی وہیکلز کے خلاف مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

برطانوی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر فلپ انگرام نے کہا کہ آن لائن ویڈیوز کے مطابق حماس کے جنگجوؤں نے بظاہر اس لانچر میں تبدیلیاں کی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اینٹی ٹینک پروجیکٹائل کو اس کی اینٹی پرسونل قسم سے تبدیل کیا جس میں چھرے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ عارضی بم بن جاتا ہے جسے زمینی فورسز کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وہ بی بی سی عربی کو بتاتے ہیں کہ ’اس کے کوئی براہ راست شواہد نہیں کہ یہ ہتھیار شمالی کوریا سے حماس تک پہنچے ہیں یا ایران سے۔ شمالی کوریا کئی برسوں سے ایران کو ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تاہم اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ یہ ہتھیار ان تک پہنچ سکیں۔ شمالی کوریا اسی طریقے سے غیر ملکی کرنسی حاصل کرتا ہے۔‘

تاہم پیانگ یانگ نے سرکاری نیوز ایجنسی کے ذریعے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ حماس نے ہتھیار ان سے حاصل کیے۔ شمالی کوریا نے سات اکتوبر کے حملوں سے متعلق ایسی اطلاعات کو ’قیاس آرائیاں اور جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔

جبکہ جنوبی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جنوری کے اوائل میں انٹیلیجنس معلومات کا حوالہ دے کر کہا کہ شمالی کوریا کے ساختہ ہتھیار غزہ میں حماس کے زیرِ استعمال ہیں۔

دھماکہ خیز ڈیوائس ’دی شواظ‘
سوشل میڈیا پر حماس کی ویڈیوز میں ایک اور ہتھیار بھی دیکھا جاسکتا ہے جس کا نام ’دی شواظ‘ ہے۔ عربی میں اس کا مطلب شعلہ ہے۔ یہ مقامی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس ہے جس سے قریب گاڑیوں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے۔

حماس کے عسکری ونگ نے تصدیق کی کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائیوں کے دوران استعمال کیا ہے۔

اسرائیل نے غزہ میں ان ہتھیاروں کی بڑی تعداد ظاہر کی جس سے پتا چلتا ہے کہ اسے وسیع پیمانے پر مقامی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
جولائی 2023 میں القسام بریگیڈ نے ویڈیو میں یہ دھماکہ خیز ڈیوائسز دکھائیں۔ ان کے ساتھ ایک تار لگی ہوتی ہے۔

انگرام نے کہا کہ حماس نے جنگ میں اس ہتھیار میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس میں صلاحیت ہے کہ یہ اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیوائس میں دھات کی ڈسک ہوتی ہے جو عام طور پر تانبے سے بنی ہوتی ہے جس کے اوپر دھماکہ خیز مواد ڈال دیا جاتا ہے۔

اس کے پھٹنے پر یہ کاپر ڈسک پروجیکٹائل میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ان ڈیوائسز کا ڈیزائن سادہ ہے مگر ان کا استعمال انھیں مؤثر بنا دیتا ہے۔

سب سے مشکل کام کاپر ڈسک کو ڈیزائن کرنا ہے۔ ان کے مطابق حماس نے ثابت کیا کہ وہ انھیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حماس اب تک ہتھیار بنانے اور ان کا انتظام کرنے کے قابل کیسے ہوا؟
حماس دھماکے سے پھٹنے والے اسرائیلی بم کو ری سائیکل بھی کر رہا ہے اور تباہ شدہ عمارتوں سے دھات اور تاریں حاصل کر رہا ہے۔

بریگیڈیر جنرل راغب نے کہا کہ ایران نے غزہ کی پٹی میں ہتھیار سمگل کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ غزہ کی سرحد پر واقع خفیہ سرنگوں اور کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم سے ممکن ہوتا ہے جسے اسرائیل نے بلاک کر رکھا ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے سابق جرنیل عزت اللہ ضرغامی، جو اب ایران میں سیاحت کے وزیر ہیں، نے نومبر 2023 کے دوران سرکاری چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سرنگوں کے ذریعے غزہ میں فلسطینی عسکری گروہوں کو ایرانی میزائل سپلائی کرنے میں اپنے کردار کو تسلیم کیا تھا۔

مصری فوج کے سابق چیف آف سٹاف یاسر ہاشم کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سرحدوں پر گرفت اتنی مضبوط نہیں۔ وہ ’بین الاقوامی سمگلنگ لائن‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو لبنان سے اسرائیل داخل ہوتی ہے۔

اسرائیلی حکام نے ستمبر 2022 میں اعلان کیا تھا کہ اس نے غزہ کی کراسنگ کے ذریعے دھماکہ خیز ہتھیاروں کی سمگنگ کا منصوبہ ناکام بنایا۔ دھماکہ خیز ہتھیاروں کو کپڑوں کی شپمنٹ میں چھپایا گیا تھا۔

 

بشکریہ:- بی بی سی عربی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے