پاکستان میں عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمان کا دورہ افغانستان سے کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی غرض سے ایک مرتبہ پھر کوششیں جاری ہیں اور اس مرتبہ یہ کام پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔
وہ گذشتہ چند دنوں سے اپنی جماعت کے ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران ان کی عبوری افغان حکومت کے وزیر اعظم اور دیگر سینیئر رہنماؤں کے علاوہ افغانستان کی طالبان حکومت کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہنے والے افغانستان کے رہبر اعلیٰ ہیبت اللہ اخونزادہ سے قندھار میں ایک ملاقات ہوئی ہے۔
تاہم نہ تو طالبان حکومت اور نہ ہی جمیعت علمائے اسلام نے اس ملاقات کی تصدیق یا تردید کی ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ایک ایسے وقت میں افغانستان کے دورے پر ہیں کہ جب دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند ماہ سے انتہائی کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر جب سے پاکستان کی نگران حکومت نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیرقانونی پناہ گزینوں کو ان کے ممالک واپس بھیجنے کا اقدام اٹھایا ہے جسے افغانستان کی طالبان ’نامناسب‘ قرار دیتی ہے۔
اسی دوران حالیہ مہینوں میں پاکستان کے سابقہ قبائلی اضلاع میں پُرتشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے متعدد مرتبہ افغانستان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں مقیم شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان کے دورے سے قبل مولانا فضل الرحمان نے جیو کے پروگرام ’جرگہ‘ میں اینکر سلیم صافی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انھیں سرکاری سطح پر اس دورے کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے۔
تاہم جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران جمعیت علما اسلام کے وفد کے دورۂ افغانستان سے متعلق سوال پر پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمان نجی حیثیت میں افغانستان گئے ہیں اور حکومتِ پاکستان اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کے دورے کی حمایت نہیں کر رہی۔
دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے دورے اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ ایک نجی دورہ ہے تاہم دورے کے بعد مولانا فضل الرحمان سے بریفنگ لی جائے گی۔
دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان کا یہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اُن دہشتگردوں کے خلاف ایکشن لے جو پاکستان میں حملوں کے ذمہ دار ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہمارا ان سے ساتھ بات چیت کرنے کا ارادہ ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ دار ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی میں یقین رکھتا ہے، افغان وزیر کامرس کے دورے کے دوران مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا، امید ہے ڈائیلاگ کے ذریعے خطے میں امن و استحکام آئے گا۔
مولانا فضل الرحمان کے دورے کا مقصد کیا ہے؟
مولانا فضل الرحمان کے دورۂ افغانستان کے بارے میں افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کارعبدالسید کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی دور کرنا ہے۔
ان کی رائے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ تناؤ کی بڑی وجہ پاکستانی سرزمین پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے حامی دیگر ریاست مخالف عسکری گروہ ہیں۔
عبدالسید کے مطابق یقیناً اس کا مقصد شدت پسندوں سے مذاکرات کی کوششوں کو بحال کرنا ہے۔
ان کی رائے میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد 2022 میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات اس وقت نتیجہ خیز ثابت نہیں کیونکہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا تھا۔
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی گو مگوں کا شکار رہی ہے اور اس دورے کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر افغان مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مولانا فضل الرحمان کا اپنا اثر ہے کیونکہ افغان طالبان اور مولانا فضل الرحمان ایک ہی مکتبہ فکر دیو بند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا افغان حکمرانوں کے ہاں ایک اپنا اثر ہے، اس لیے حکومت نے شاید انھیں حالات بہتر کرنے کے لیے بھیجا ہو اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے۔‘
انتخابات کی تیاریاں کرنے کی بجائے ایک ہفتے طویل افغان دورے پر روانگی سے قبل مولانا نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔
اس بارے میں جمیعت علمائے اسلام کے رہنما اور اس وفد میں شریک مولانا عبدالواسع سے کابل میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان نے امارت اسلامی افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے پیر کے روز ملاقات کی ہے۔‘
اس ملاقات کے حوالے سے جے یو آئی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ہمارے دورۂ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے اور دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات، معیشت، تجارت اور باہمی ترقی میں تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہے۔‘
جے یو آئی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے افغان وزیر اعظم سے کہا کہ ’جے یو آئی نے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کے رویے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا ہے‘ اور یہ کہ ’ہم اس قسم کے رویے کو غلط اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔‘
جبکہ افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کو ’نقصان پہنچانے یا مسائل پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کے حل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے علمائے کرام کا کردار اہم ہے۔‘
کابل میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ موجود مولانا عبدالواسع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت افغان حکام کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس دورے پر افغان حکام سے کالعدم ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالنے اور انھیں پاکستان میں حملوں سے روکنے کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’کسی ایک موضوع یا انفرادی مسئلے پر بات نہیں ہوئی۔ اس میں پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اجتماعی مسائل پر بات ہوئی ہے اور اب مزید اس میں بہتری کے لیے دونوں ممالک کے ارباب اختیار اس کو آگے بڑھائیں گے۔‘
افغانستان اور پاکستان کی مولانا فضل الرحمان کے دورے سے کیا توقعات ہیں؟
تجزیہ کار عبدالسید کا کہنا ہے کہ کابل پہنچنے پر مولانا فضل الرحمان کے وفد کو ایک غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا جو اب تک طالبان کی طرف سے کسی بھی پاکستانی رہنما کے لیے سب سے بڑا استقبال قرار دیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان کے حامیوں کے سوشل میڈیا تاثرات سے یہ واضح ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے کردار سے زیادہ پُرامید نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بطور پاکستانی سیاستدان انھوں نے طالبان کے ساتھ مسلکی و نظریاتی رشتے کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھا ہے، اس لیے وہ اس دورے کے مقصد کو پاکستانی حکومت کے سیاسی مفادات کے حصول کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
عبدالسید کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا افغان طالبان میں مقبولیت رکھنے والے پاکستان کے اہم پاکستانی دیوبندی مذہبی رہنماؤں بالخصوص چارسدہ سے تعلق رکھنے والے شیخ ادریس کو لے جانے سے اس کی وفد اور سفر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
عبدالسید کہتے ہیں کہ بیشتر طالبان رہنما اور کمانڈر شیخ ادریس کے شاگرد رہے ہیں جو کہ سرحد کے دونوں طرف پشتون دیوبند علما میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کے لیے شیخ ادریس دیگر پاکستانی مذہبی رہنماؤں کے مقابلے میں ایک غیر متنازع شخصیت ہیں۔
جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اگرچہ اس دورے کو مولانا فضل الرحمان کا نجی دورہ قرار دیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ موجودہ حالات میں اہمیت کا حامل ہے اور مولانا فضل الرحمان سے توقع ہے کہ وہ اپنا ذاتی تعلق استعمال کر کے افغان حکام کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد ایسا تاثر سامنے آیا کہ افغان طالبان کو حکومت پاکستان کی حمایت حاصل تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ہی افغان طالبان کی جانب سے سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات ہوئے جس سے دونوں کے درمیان کشیدگی بڑھنا شروع ہوئی۔
پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو پاکستان سے نکلنے کا کہا اور یوں کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا اور افغان عوام کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی واضح نہیں ہے۔ ’ایسا بھی سوچا جاتا ہے کہ ایک طرف تو دہشتگردی کا سامنا ہے اور دوسری طرف یہ سوچا جاتا ہے کہ کیا افغانستان کے اندر جا کر مشتبہ مقامات پر حملہ کیا جا سکتا ہے تو پھر اس کے نتائج کو سامنے رکھا جاتا ہے لیکن یہ بہتر لائحہ عمل نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بہتر لائحہ عمل یہ ہو گا کہ افغانستان میں طالبان حکومت ٹی ٹی پی پر زور دے کر حالات بہتر بنائے۔ ’اس کے لیے مولانا فضل الرحمان کا اثر و رسوخ استعمال کیا جا سکے۔ افغانستان میں طالبان ان کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔‘
تاہم تجزیہ کار بریگیڈیر ریٹائرڈ محمود شاہ کی رائے میں مولانا فضل الرحمان کے دورے سے ’پاکستان کے لیے کوئی بہتری نہیں ہو گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو اگر کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو شاید ہو کیونکہ اس وقت جمیعت علمائے اسلام کو افغان حکام کی ضرورت ہے۔‘
مولانا فضل الرحمان کا انتخاب ہی کیوں؟
آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں میں پُرتشدد واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور خود مولانا فضل الرحمان کو بھی تھریٹ الرٹ جاری ہو چکا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کلاچی، لکی مروت، بنوں، شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقے جو جے یو آئی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہاں پُرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں مولانا فضل الرحمان ’ان علاقوں سمیت دیگر مقامات پر تحفظ کی ضمانت چاہیں گے۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں جیسے عوامی نیشنل پارٹی مشکل صورتحال سے دوچار رہی ہے اب شاید جمیعت علمائے اسلام (ف) کو اس کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ افغانستان میں جس طرح کی حکومت ہوتی ہے پاکستان میں اسی طرح کی سیاسی قیادت کو افغان حکام سے رابطوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
جب اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتیں تھیں تو محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت عوامی نینشل پارٹی کے قائدین اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کو افغانستان بھیجا جاتا تھا۔
اب چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے، اس لیے حالات کی بہتری کے لیے ان کے ہم مزاج مولانا فضل الرحمان کو افغانستان کے دورے کے لیے بھیجا گیا ہے