کرمان دہشت گردانہ حملے کا اصل ذمہ دار کون؟
ہیلری کلنٹن، جو کچھ عرصے تک امریکہ کی وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتی رہے، نے الیکشن مہم کیلئے انجام پانے والے ایک لائو مناظرے میں کہا تھا: "داعش ہم نے بنائی تھی۔” اس کا یہ سرکاری بیان کافی عرصے تک خبروں اور سیاسی رپورٹس کی سرخی بنا رہا۔ لائیو مناظرے میں ہیلری کلنٹن کا حریف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والا صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔ وہ یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا اور اس کے پاس جواب میں کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ آج تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے ایک بار پھر ایران کے شہر کرمان میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر سوگواروں کے اجتماع میں دو خودکش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
کرمان میں انجام پانے والے اس دہشت گرد حملے کی ذمہ داری سب سے پہلے امریکہ (جو بائیڈن حکومت) اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم (نیتن یاہو حکومت) پر عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ وائٹ ہاوس نے اپنے سرکاری بیانئے میں اس دہشت گردانہ اقدام سے کسی قسم کے تعلق کا انکار کیا ہے اور افسوس کا اظہار بھی کیا ہے لیکن بنجمن نیتن یاہو نے خاموشی اختیار کر کے شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر اس دہشت گردانہ اقدام کی ضمنی حمایت کی ہے جو صیہونی رژیم کی جانب سے بیروت میں حماس رہنما صالح العاروری کی ٹارگٹ کلنگ سے محض دو دن بعد انجام پایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاہو اس وقت اسرائیل کے اندر خاص طور پر اپنے ہی شہریوں کی اکثریت کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہے۔ نیتن یاہو بند گلی سے روبرو ہے جس کے باعث صیہونی فوج کے اندر انتشار اور نیتن یاہو سے مخالفت خبروں کی زینت بن چکی ہے
نیتن یاہو نے اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ محض چند ہفتوں کے اندر حماس کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ لیکن نئے سال کے آغاز پر نیتن یاہو حکومت کے ترجمان کا پیغام یہ تھا: "غزہ میں جاری جنگ طویل مدت تک جاری رہے گی اور ممکن ہے اس سال کے آخر تک جاری رہے۔” غزہ جنگ کے زمینی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو مرحلہ با مرحلہ بند گلی میں پھنس چکا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حتی صیہونی فوج کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ایسے وقت جب جو بائیڈن امریکہ کے اندر اور نیتن یاہو اسرائیل کے اندر شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہیں، کرمان میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدام کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے اپنے ذمے لے لی ہے۔ اس کا ایک مقصد عالمی میڈیا کی توجہ مقبوضہ فلسطین میں جاری صیہونی رژیم کی ناکامیوں نیز غزہ پر اس کے انسان سوز مظالم سے ہٹا کر داعش کی جانب مبذول کرنا ہے۔
یہ حقیقت وائٹ ہاوس میں جو بائیڈن حکومت کے ترجمان کی پریس کانفرنس پر غور کرنے سے مزید کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہ پریس کانفرنس کرمان میں انجام پانے والے دہشت گردانہ واقعے کے بارے میں منعقد کی گئی تھی۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان نے زور دے کر کہا: "امریکی حکومت کو اس دہشت گردانہ اقدام کے بارے میں کسی قسم کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔” اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت بھی کی۔ امریکہ کے ایک معروف اخبار کے صحافی نے پوچھا: "لیکن وائٹ ہاوس تو اب تک ایران کے خلاف ایسے کئی دہشت گردانہ اقدامات انجام دے چکا ہے۔ خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار جہاز کو مار گرانے سے لے کر کئی بم دھماکے اور دہشت گرد حملے۔” وائٹ ہاوس کا ترجمان لائیو پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے ایسی باتوں پر شدید حیرت اور سراسیمگی کا شکار ہو گیا۔
جو بائیڈن کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی واضح حمایت کے باعث مغربی ممالک کی رائے عامہ اس وقت امریکہ کے شدید مخالف ہے۔ داعش اس وقت مشرق وسطی میں امریکی اسرائیلی دہشت گردی کیلئے فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہی ہے اور یہ بات عالمی رائے عامہ کی نظر میں ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکی ہے۔ کرمان میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی اصل ذمہ دار اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ہے۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی ترکی میں اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد سے منسلک ایک بڑا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔ یہ بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ میں ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کیلئے خطے میں دہشت گردانہ اقدامات کا سہارا لینے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ داعش، امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردای کا ایک آلہ کار ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف خود اعلی سطحی امریکی حکام بھی کر چکے ہیں۔