نئے 5 سالہ منصوبے کیلیے 150 ارب کی سرمایہ کاری کی ضرورت
اسلام آباد: نئے 5سالہ منصوبے کے دوران 150 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
پلاننگ کمیشن کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ناقص گورننس کے اشاریوں کو بہتر بنانے کیلیے نئے 5سالہ منصوبے کے دوران 150 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی، یہ سرمایہ کاری جدت، استعداد میں اضافے، پرفارمنس مینجمنٹ، سروس ڈلیوری، شعبہ انصاف، پولیس، ریسرچ اور پبلک سیکٹر بشمول ریگولیٹری فریم ورک اور اعدادوشمار کے شعبوں میں کرنا ہو گی تاکہ سروس ڈلیوری میں پاکستان جنوبی ایشیائی ملکوں سے آگے نکل سکے۔
رپورٹ کے مطابق 2024-29 کے منصوبے کے متن میں تمام سرکاری شعبوں میں ہر سطح پر احتساب اور شفافیت کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بیڈ گورننس میں مرکزی کردار ان شعبوں کا ہے جوکہ عوام کیساتھ براہ راست ڈیل کرتے ہیں، متن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران گورننس کے اشارئیے بہتر بنانے کیلئے 92 ارب روپے خرچ کئے گئے، اس کے باوجود علاقائی ممالک کے مقابلے میں اشاریئے مزید بدتر ہوئے۔
پاکستان نے طویل المدت مرکزی منصوبہ بندی بند کر دی تھی مگر آئی ایم ایف کی سفارشات پر پانچ سالہ منصوبے پردوبارہ کام شروع کیا ، اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی سفارشات کو سینٹرل ڈپولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے منظورکرکے معاشی فیصلہ سازی کے سب سے بڑے ادارے نیشنل اکنامک کونسل کو حتمی منظوری کیلئے بھیج دیا۔
پلاننگ کمیشن نے مقامی حکومتوں کو موثر اور فعال بنانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد کرکے ہر سطح پرایک پائیدار، فعال اور مستحکم ڈی سنٹرلائزڈ گورننس سسٹم کو فروغ دیا جائے۔ پانچ سالہ منصوبے کے دوران جامع گورننس، کمیونٹیز کو بااختیار اور نچلی سطح پر سروسز کی موثر ڈلیوری یقینی بنا کر مقامی حکومت کے نظام کو مستحکم بنایا جائے گا۔
ایف بی آر، پولیس ، عدلیہ، سٹیٹ بینک، نادرا، مسابقی کمیشن کی سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کی بھی تجاویز دی گئی ہیں، ایف بی آر کو متوقع ٹیکس دہندگان کا مرکزی ڈیٹا بیس تیار کرنے کیلئے نادرا، ٹیلی کام کمپنیوں، بینکوں، تعلیمی اور ترقیاتی اداروں سے اعدادوشمار حاصل کرنے، ادارہ جاتی اور انفرادی سطح پر احتساب کو موثر بنانے کیلئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کو مستحکم بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔
متن میں ادارہ جاتی کرپشن کو گورننس میں بہتری کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے، جوکہ کاروبار اور ترقیاتی سرگرمیوں سمیت معیشت کے تمام شعبوں میں پھیلی ہوئی ہے، اس سے نمٹنے کیلئے نیب، آڈیٹر جنرل آفس، ایف آئی اے اور احتساب کے دیگر وفاقی و صوبائی اداروں تربیت اور مالی و انتظامی خودمختاری دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ قانون کی حکمران کے فروغ کیلئے بروقت انصاف کی فراہمی کو موثر بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔