2023 میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا: رپورٹ

334181-1070377856.jpg

پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی 2023 کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے اب یہ تاثر نہ صرف ختم ہو رہا ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑے پیمانے پر اور ملک کے زیادہ حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

آج سے دس سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمہ دار یہ تینوں گروہ ہیں۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2023 میں دہشت گردی کے 306 حملوں میں 693 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور1,124 افراد زخمی ہوئے۔ 2022 کے مقابلے پر 2023 میں دہشت گردی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جانی نقصان 2022 کے مقابلے پر 65 فیصد زیادہ ہے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مرنے والوں میں 330 افراد کا تعلق افواج اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے ہے جن میں سے 26 ایف سی کے اہلکار، 176 پولیس اہلکار، 110 فوجی، 11 لیویز، دو رینجرز شامل ہیں۔

مرنے والوں میں 260 عام شہری بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف عسکریت پسندوں کےجانی نقصان کا عدد103ہے اور 47 زخمی ہوئے ہیں۔ گویا ایک دہشت گرد کی اموات کے بدلے ہمارے چھ لوگ مارے گئے۔

پنجاب میں سب سے کم حملے ہوئے کل چھ حملوں میں 16 افراد مارے گئے۔ ان میں سے چار حملے ٹی ٹی پی اور تحریک جہاد پاکستان نے کیے۔

گذشتہ سال کے تناسب کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب میں دہشت گردی میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے سندھ میں یہ اضافہ 87 فیصد ہے اور خیبر پختونخوا میں تین فیصد ہے مگر دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان میں خیبر پختونخوا سب سے آگے ہے۔

تحریک طالبان اب بھی سب سے بڑا خطرہ

دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے بڑا حصہ مذہبی عسکریت پسندوں کا ہے جن میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ داعش خراسان شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے کل 306 حملوں میں سے 208 حملے کیے ہیں جن میں 579 جانیں گئیں۔

واضح رہے کہ انہی تنظیموں نے 2022 میں 179 حملے کیے تھے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور سندھی قوم پرستوں کی جانب سے گذشتہ سال86 حملے کیے گئے جن میں 90افراد مارے گئے، جبکہ 2022 میں ان گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کی تعداد 79 تھی۔

فرقہ وارانہ حملوں کی تعدادجو کہ 2022 میں صرف 4تھی گذشتہ سال بڑھ کر 12 ہو گئی ہے جن میں 24 اموات ہوئیں اور 35افراد زخمی ہوئے۔

گذشتہ سالوں کی طرح 2023 میں بھی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے بنے ہیں جوکل ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سے 67 فیصد کا نشانہ تھے۔ 19 حملوں کا نشانہ عام شہری اور 10کا پولیو ورکرز بنے ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل کے جدول میں دی گئی ہے۔

کل حملوں میں 23 حملے خود کش تھے جن حملوں میں فائرنگ کی گئی ان کی تعداد 160ہے جبکہ 67 حملے خود ساختہ بارودی سرنگوں کے ذریعے کیے گئے۔ 38 حملوں میں دستی بم استعمال کیے گئے۔ گذشتہ سال جتنے حملوں ہوئے ان میں سے 93 فیصد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ سب سے بڑا نشانہ خیبر پختونخوا بنا ہے جہاں کل ہونے والے حملوں میں سے 57 فیصد ہوئے جن کے نتیجے میں 422 لوگ مارے گئے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی اور جنوبی وزیرستان، بنوں، ٹانک لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور شامل ہیں۔ اسلامک سٹیٹ خراسان نے خیبر پختونخوا میں 22 حملے کیے جن میں سب سے زیادہ 10 حملے ضلع باجوڑ میں کیے گئے۔ اسی صوبے میں 75 فیصد حملوں کا نشانہ افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بنے ہیں۔تحریک طالبان اب بھی سب سے بڑا خطرہ

دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے بڑا حصہ مذہبی عسکریت پسندوں کا ہے جن میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ داعش خراسان شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے کل 306 حملوں میں سے 208 حملے کیے ہیں جن میں 579 جانیں گئیں۔

واضح رہے کہ انہی تنظیموں نے 2022 میں 179 حملے کیے تھے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور سندھی قوم پرستوں کی جانب سے گذشتہ سال86 حملے کیے گئے جن میں 90افراد مارے گئے، جبکہ 2022 میں ان گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کی تعداد 79 تھی۔

فرقہ وارانہ حملوں کی تعدادجو کہ 2022 میں صرف 4تھی گذشتہ سال بڑھ کر 12 ہو گئی ہے جن میں 24 اموات ہوئیں اور 35افراد زخمی ہوئے۔

گذشتہ سالوں کی طرح 2023 میں بھی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے بنے ہیں جوکل ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سے 67 فیصد کا نشانہ تھے۔ 19 حملوں کا نشانہ عام شہری اور 10کا پولیو ورکرز بنے ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل کے جدول میں دی گئی ہے۔

کل حملوں میں 23 حملے خود کش تھے جن حملوں میں فائرنگ کی گئی ان کی تعداد 160ہے جبکہ 67 حملے خود ساختہ بارودی سرنگوں کے ذریعے کیے گئے۔ 38 حملوں میں دستی بم استعمال کیے گئے۔ گذشتہ سال جتنے حملوں ہوئے ان میں سے 93 فیصد صرف دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ سب سے بڑا نشانہ خیبر پختونخوا بنا ہے جہاں کل ہونے والے حملوں میں سے 57 فیصد ہوئے جن کے نتیجے میں 422 لوگ مارے گئے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی اور جنوبی وزیرستان، بنوں، ٹانک لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور شامل ہیں۔ اسلامک سٹیٹ خراسان نے خیبر پختونخوا میں 22 حملے کیے جن میں سب سے زیادہ 10 حملے ضلع باجوڑ میں کیے گئے۔ اسی صوبے میں 75 فیصد حملوں کا نشانہ افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بنے ہیں۔
گذشتہ سال سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف 129 آپریشنز کیے جن میں 373 دہشت گرد مارے گئے۔ 2022 میں ان آپریشنز کی تعداد 87 تھی جو اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان کی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان آپریشنز میں سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 52 اہلکار بھی جان سے گئے جن میں دو عام شہری بھی شامل تھے۔ سب سے زیادہ97 آپریشنز خیبر پختونخوا میں ہوئے جبکہ 28 بلوچستان، تین پنجاب اور ایک سندھ میں ہوا۔

بلوچستان دہرے نشانے پر

بلوچستان دہرے نشانے پر ہے، ایک طرف علیحدگی پسند ہیں تو دوسری جانب طالبان گروہ۔ صوبے میں علیحدگی پسند گروہوں اور مذہبی عسکری گروہوں کی جانب سے 110 حملے کیے گئے جبکہ 2022 میں ان حملوں کی تعداد 79 تھی۔ بلوچستان میں ہونے والا جانی نقصان بھی 229 تھا جبکہ 2022 میں یہ 106 تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے 78 حملوں میں 86 لوگ مارے گئے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ 19اضلاع بنے جن میں ہدف زیادہ تر سیکورٹی سے وابستہ ادارے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان اور اسلامک سٹیٹ خراسان نے بلوچستان میں 29 حملے کیے جن میں 139لوگ جان سے گئے۔

داعش خراسان مستونگ، بولان اور قلات کے اضلاع میں سرگرم ہے۔ سندھ میں دہشت گردی کے 15 واقعات ہوئے جن میں سے 14صرف کراچی میں ہوئے جن میں 16افراد کی اموات واقع ہوئیں۔ سات حملوں کی ذمہ داری سندھو دیشن ریوولوشنری آرمی نے قبول کی جبکہ بی ایل اے اور بی ایل ایف بھی کراچی میں تین حملوں کے ذمہ دار تھے۔
’کابل میں طالبان کے آنے سے دہشت گردی بڑھی‘

پاکستان گذشتہ 20 سالوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ان میں 2009 کو سب سے خونریز سال قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم 2012 تک دہشت گرد حملوں میں کمی دیکھی گی گئی لیکن پھر 2013 میں ان حملوں میں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 2020 تک یہ گراف نیچے کی جانب ہی دیکھا گیا لیکن جب طالبان نے 15اگست2021 کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تو اس کے بعد سے پاکستان میں ہر سال دہشت گردی کی وارداتوں اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق طالبان کے دو سال کے اندر پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 64 فیصد اور ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں 73 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جیتی تھی وہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بے اثر ہو رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے