اسرائیل کے بڑھتے حملوں سے جنگ پھیلنے کا خدشہ، بلنکن کا مشرق وسطیٰ کا چوتھا دورہ
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن جمعرات کو مشرق وسطیٰ کے اپنے چوتھے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد لڑائی کا دائرہ کار پھیلنے اور علاقائی لڑائی کی شکل اختیار کرنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بدھ کو بتایا کہ اینٹنی بلنکن جمعرات کی شام واشنگٹن سے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ ان کے دورے میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
عہدے دار نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں تاہم اینٹنی بلنکن اس سے قبل متعدد عرب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد یہ بلنکن کا خطے کا چوتھا اور اسرائیل کا پانچواں دورہ ہوگا۔
منگل کو لبنانی دارالحکومت بیروت کے مضافات میں ایک مشتبہ اسرائیلی حملے میں حماس کے ایک سرکردہ رہنما صالح العاروری کی شہادت کے بعد لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کو کہا کہ ’تنازعے میں مزید اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔ نہ ہی خطے کے کسی ملک کے مفاد میں اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک کے مفاد میں۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیلی فوج نے ایسے بیانات دیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیروت میں ڈرون حملے میں حماس رہنما کی شہادت کے بعد دونوں لڑائی کے غزہ کی پٹی سے باہر پھیلاؤ کا خطرہ مول لینے سے بچنا چاہتے ہیں۔
حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ نے بدھ کو بیروت میں اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ منگل کو حماس کے نائب صالح العاروری کی شہادت کے بعد حزب اللہ ’خاموش نہیں رہ سکتی۔‘
نصراللہ نے کہا کہ اگر اسرائیل نے لڑائی کو لبنان تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تو ان کی فوج آخری دم تک لڑے گی لیکن انہوں نے حماس کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی کوئی ٹھوس دھمکی نہیں دی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیال ہاگری نے صالح العاروری کی موت پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ فوج اس کے بعد کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ’پوری طرح تیار ہے۔‘
ایران میں بھی بدھ کو 100 سے زائد افراد اس وقت جان سے چلے گئے، جب وہ پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کی تقریب میں شریک تھے، جنہیں جو بائیڈن کے پیش رو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی حملے میں ٹھیک چار سال پہلے مار دیا گیا تھا۔
امریکہ نے اس واقعے میں اپنے یا اسرائیل کے ملوث ہونے کی تردید کردی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلامک سٹیٹ (داعش) کی طرف سے کیا جانے والا ’دہشت گردانہ حملہ‘ ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے عوامی اور سفارتی حمایت سمیت ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے بھی اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اینٹنی بلنکن چند روز قبل ایک بار پھر کانگریس کے جائزے کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل میں تیزی لائے۔
بائیڈن کا یہ رویہ عرب دنیا کے کچھ حصوں میں غم و غصے کا سبب بنا۔ امریکی میں صدارتی انتخاب میں ایک سال بھی کم وقت رہ گیا ہے اور صدر بائیڈن کی یہ پالیسی ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو بھاری پڑ رہی ہے، جس کے زیادہ تر رہنماؤں کا تعلق بائیں بازو کے ساتھ ہے۔
دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کی اموات کے ساتھ ساتھ نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی شراکت داروں کے اشتعال انگیز بیانات پر بھی غصے کا اظہار کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے دو اسرائیلی وزرا ایتمار بن گویر اور بتسالیل سموترچ کے ان حالیہ بیانات کو مسترد کردیا تھا، جن میں انہوں نے فلسطینیوں کی غزہ سے باہر آبادی کاری کی وکالت کی تھی۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر کو اسرائیل میں گھس کر تقریباً 1,140 افراد کو مارا، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر زمینی اور فضائی بمباری کے نتیجے میں بدھ تک جان سے جانے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 22 ہزار 313 تک پہنچ گئی ہے، جو اس کی 23 لاکھ آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہے۔