پاکستان کی نئی افغان پالیسی کے اثرات اور مضمرات

333031-615703791.jpg

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے دو سال بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغان پناہ گاہوں سے مسلسل حملوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے پاکستان نے طالبان کی حامی افغان پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے۔

اکتوبر میں پاکستان نے بین الاقوامی فورم پر طالبان کی حمایت یا کسی اور مراعات میں توسیع نہ کرنے، 17 لاکھ غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے اور ایک دستاویزی ویزا پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس اقدام کے سبب افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنے موقف میں کسی واضح تبدیلی کے بغیر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان کی ماضی میں ​​طالبان نواز افغان پالیسی تین بنیادی مفروضوں پر مبنی تھی۔ پہلا ایک دوستانہ کابل حکومت قائم کرنا، جو افغانستان پاکستان سرحد کو بین الاقوامی طور پر قبول کرے۔

دوسرا افغانستان میں انڈین اثر و رسوخ کو کم کرے اور تیسرا طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کی توقع تھی۔

اس پس منظر میں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی نئی افغان پالیسی سے طالبان، امریکہ اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی داخلی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کی طرف سے یک طرفہ طور پر 17 لاکھ افغانوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے کے بعد پہلے سے کشیدہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں مزید ابتری آئی جب کہ افغان رائے عامہ پہلے ہی پاکستان کے خلاف تھی۔

مزید برآں حالیہ پیش رفت نے کابل میں اسلام آباد کے لیے موجود محدود سفارتی خیر سگالی کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے پاکستانی اور طالبان رہنماؤں کے درمیان سخت الفاظ اور بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔

پناہ گزینوں کو یکطرفہ طور پر بے دخل کرنے کے بجائے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) جیسے علاقائی فورمز کے ذریعے کام کرنا چاہیے اور روس، چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے ممالک کو شامل کرنا چاہیے، جو افغانستان سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات پر یکساں طور پر فکر مند ہیں۔

پانچ مسائل جن میں ٹی ٹی پی پر تناؤ، طالبان کی افغانستان پاکستان سرحد کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ، پناہ گزینوں کا مسئلہ، پاکستان حکومت کا طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ اور مستقبل کی رفتار کو متعین کریں گے، جب کہ حالیہ پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ تمام پانچوں نکات پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔

طالبان سے دوری اور سخت رویہ اختیار کرنے کی پاکستان کی نئی افغان پالیسی، امریکی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔ افغانستان کی دو سال کی تنہائی پسند پالیسی، جو کہ دوحہ معاہدے 2020 کے تحت سیاسی شمولیت، انسانی حقوق کے احترام اور انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پیشگی شرائط پر مبنی تھی، کے بعد اس حوالے سے امریکہ کو احساس ہوا ہے کہ اس پالیسی نے طالبان کے رویے کو مزید سخت کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تنہائی کی پالیسی نے چین، ایران اور روس جیسے امریکی مخالفین کو افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دیا ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان کی سخت گیر پالیسی کے امریکہ میں اثرات محدود ہوں گے۔

بلاشبہ امریکہ کو داعش خراسان کے خلاف طالبان کے موثر کریک ڈاؤن کے باوجود افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کے بارے میں اب بھی تشویش ہے، تاہم واشنگٹن ان خدشات کو دور کرنے کے لیے تصادم کی بجائے تعاون پر مبنی طریقوں کو تلاش کر رہا ہے۔

پاکستان اور طالبان کے درمیان کوئی بھی تنازع واشنگٹن کے لیے نئے چیلنجز پیدا کرے گا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان کا تصادم موجودہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے سکیورٹی مسائل پیدا کرے گا۔
اسی طرح امریکہ کو پاکستان کی سرزمین سے افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی پر تشویش ہے۔ پاکستان جن 17 لاکھ پناہ گزینوں کو بے دخل کرنا چاہتا ہے، ان میں سے 25 ہزار کے قریب امریکی ویزا پالیسی کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ امریکہ جانے کے لیے پاکستان میں اپنے ویزا کے عمل کو مکمل کرنے کے منتظر ہیں۔

اس سلسلے میں امریکہ نے اپنی فہرستیں تیار کر لی ہیں اور پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ وہ انہیں بے دخل نہ کریں۔ یہ افغان پناہ گزین حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے دوران امریکہ کے ساتھ مترجم، معاون، ٹھیکیدار اور دیگر حیثیت میں کام کرتے تھے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی نسبتاً کم اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کی نئی افغان پالیسی سے ان کے تعلقات میں نمایاں کمی متوقع نہیں ہے، تاہم یہ امریکہ کے لیے سفارتی اور سکیورٹی چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں چین نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی، اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات کو مزید گہرا کیا ہے۔ اس کے پیش نظر پاکستان کی نئی افغان پالیسی بیجنگ میں کچھ حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔ چین پہلے ہی بلوچستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فکرمند ہے، جہاں گوادر بندرگاہ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آخری مقام ہے۔

چین اقتصادی اور علاقائی رابطوں کے مواقع کے لیے افغانستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ مصروف عمل ہے۔

بہرحال افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی خرابی پاکستان کی غیر مستحکم سکیورٹی صورت حال پر منفی اثرات ڈالے گی۔

افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے پہلے دو سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس نے ٹی ٹی پی میں نئی روح ڈالنے والے اثرات مرتب کیے تھے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی بحالی کے بعد سے پاکستان دہشت گردی سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ افغانستان۔ پاکستان سرحد کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ممکنہ پھیلاؤ کے ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تشدد کی سطح مزید بڑھے گی۔

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے دو سال بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغان پناہ گاہوں سے مسلسل حملوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے پاکستان نے طالبان کی حامی افغان پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے۔

اکتوبر میں پاکستان نے بین الاقوامی فورم پر طالبان کی حمایت یا کسی اور مراعات میں توسیع نہ کرنے، 17 لاکھ غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے اور ایک دستاویزی ویزا پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس اقدام کے سبب افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنے موقف میں کسی واضح تبدیلی کے بغیر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان کی ماضی میں ​​طالبان نواز افغان پالیسی تین بنیادی مفروضوں پر مبنی تھی۔ پہلا ایک دوستانہ کابل حکومت قائم کرنا، جو افغانستان پاکستان سرحد کو بین الاقوامی طور پر قبول کرے۔

دوسرا افغانستان میں انڈین اثر و رسوخ کو کم کرے اور تیسرا طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کی توقع تھی۔

اس پس منظر میں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی نئی افغان پالیسی سے طالبان، امریکہ اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی داخلی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کی طرف سے یک طرفہ طور پر 17 لاکھ افغانوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے کے بعد پہلے سے کشیدہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں مزید ابتری آئی جب کہ افغان رائے عامہ پہلے ہی پاکستان کے خلاف تھی۔

مزید برآں حالیہ پیش رفت نے کابل میں اسلام آباد کے لیے موجود محدود سفارتی خیر سگالی کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کی نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے پاکستانی اور طالبان رہنماؤں کے درمیان سخت الفاظ اور بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔

پناہ گزینوں کو یکطرفہ طور پر بے دخل کرنے کے بجائے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) جیسے علاقائی فورمز کے ذریعے کام کرنا چاہیے اور روس، چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے ممالک کو شامل کرنا چاہیے، جو افغانستان سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات پر یکساں طور پر فکر مند ہیں۔

پانچ مسائل جن میں ٹی ٹی پی پر تناؤ، طالبان کی افغانستان پاکستان سرحد کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ، پناہ گزینوں کا مسئلہ، پاکستان حکومت کا طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ اور مستقبل کی رفتار کو متعین کریں گے، جب کہ حالیہ پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ تمام پانچوں نکات پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔

طالبان سے دوری اور سخت رویہ اختیار کرنے کی پاکستان کی نئی افغان پالیسی، امریکی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔ افغانستان کی دو سال کی تنہائی پسند پالیسی، جو کہ دوحہ معاہدے 2020 کے تحت سیاسی شمولیت، انسانی حقوق کے احترام اور انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پیشگی شرائط پر مبنی تھی، کے بعد اس حوالے سے امریکہ کو احساس ہوا ہے کہ اس پالیسی نے طالبان کے رویے کو مزید سخت کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تنہائی کی پالیسی نے چین، ایران اور روس جیسے امریکی مخالفین کو افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دیا ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان کی سخت گیر پالیسی کے امریکہ میں اثرات محدود ہوں گے۔

بلاشبہ امریکہ کو داعش خراسان کے خلاف طالبان کے موثر کریک ڈاؤن کے باوجود افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کے بارے میں اب بھی تشویش ہے، تاہم واشنگٹن ان خدشات کو دور کرنے کے لیے تصادم کی بجائے تعاون پر مبنی طریقوں کو تلاش کر رہا ہے۔

پاکستان اور طالبان کے درمیان کوئی بھی تنازع واشنگٹن کے لیے نئے چیلنجز پیدا کرے گا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان کا تصادم موجودہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے سکیورٹی مسائل پیدا کرے گا۔
اسی طرح امریکہ کو پاکستان کی سرزمین سے افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی پر تشویش ہے۔ پاکستان جن 17 لاکھ پناہ گزینوں کو بے دخل کرنا چاہتا ہے، ان میں سے 25 ہزار کے قریب امریکی ویزا پالیسی کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ امریکہ جانے کے لیے پاکستان میں اپنے ویزا کے عمل کو مکمل کرنے کے منتظر ہیں۔

اس سلسلے میں امریکہ نے اپنی فہرستیں تیار کر لی ہیں اور پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ وہ انہیں بے دخل نہ کریں۔ یہ افغان پناہ گزین حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے دوران امریکہ کے ساتھ مترجم، معاون، ٹھیکیدار اور دیگر حیثیت میں کام کرتے تھے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی نسبتاً کم اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کی نئی افغان پالیسی سے ان کے تعلقات میں نمایاں کمی متوقع نہیں ہے، تاہم یہ امریکہ کے لیے سفارتی اور سکیورٹی چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں چین نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی، اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات کو مزید گہرا کیا ہے۔ اس کے پیش نظر پاکستان کی نئی افغان پالیسی بیجنگ میں کچھ حد تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔ چین پہلے ہی بلوچستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فکرمند ہے، جہاں گوادر بندرگاہ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آخری مقام ہے۔

چین اقتصادی اور علاقائی رابطوں کے مواقع کے لیے افغانستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ مصروف عمل ہے۔

بہرحال افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی خرابی پاکستان کی غیر مستحکم سکیورٹی صورت حال پر منفی اثرات ڈالے گی۔

افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے پہلے دو سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس نے ٹی ٹی پی میں نئی روح ڈالنے والے اثرات مرتب کیے تھے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی بحالی کے بعد سے پاکستان دہشت گردی سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ افغانستان۔ پاکستان سرحد کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ممکنہ پھیلاؤ کے ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تشدد کی سطح مزید بڑھے گی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے