آئین چیف جسٹس کو یکطرفہ مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

c2db9ec7-efc6-476e-8bf4-83b9849e1699.jpeg

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ قرار دیا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا نہیں دکھایا، نہ ہی عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوئی بلکہ عدلیہ مضبوط اور زیادہ خودمختار ہوئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ سے ’انصاف تک رسائی میں آسانی آئی۔‘چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا کہ ’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کسی طور بھی آئینی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔‘فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی ہر شق کا انتہائی احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے آٹھ جون کو کہا کہ کیس جولائی میں سماعت کے لیے مقرر ہو گا مگر جولائی اور اگست کے دو ماہ تک کیس سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا، سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے کیس سنا لیکن رجسٹرار آفس کے اعتراضات کا معاملہ زیر غور ہی نہیں لایا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان نے چیف جسٹس پاکستان کو فرد واحد کی حیثیت سے یہ حق نہیں دیا کہ وہ اکیلے فیصلہ کرے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کو سات اختیارات دیے گئے ہیں، شفاف ٹرائل کے اصول کے تحت عدالتیں آئین و قانون کے تحت فیصلے کرنے کی پابند ہیں، ہر جج حلف کے تحت قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس پاکستان اور دیگر ججز پر مشتمل ہے، آئین چیف جسٹس پاکستان کو یکطرفہ مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس پاکستان کی دانش آئین کا متبادل نہیں ہوسکتی، نہ ہی چیف جسٹس پاکستان اپنی رائے دیگر ججز پر تھوپ سکتے ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین و قانون میں ماسٹر آف روسٹر کی کوئی اصطلاح نہیں، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کی کی آئین میں ممانعت ہے اور یہ شرعی اصولوں کے خلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں، اسلام اور پوری دنیا میں کسی فیصلے کیخلاف اپیل کا حق حاصل ہوتا ہے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے، عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو چھوٹے بینچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جاسکتا

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے