یوکرین میں داعش کی سرگرمیاں اور مغربی دعوے

bjz-231225-3.jpg

یوکرین جنگ کے آغاز سے اب تک اس کے بارے میں بعض ایسی چونکا دینے والی خبریں سامنے آ چکی ہیں جنہوں نے دنیا والوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ ایسی ہی خبروں میں سے ایک اس جنگ میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شرکت ہے۔ تقریباً دس ماہ قبل خبررساں ادارے ایسوسی آیٹڈ پریس نے کچھ ایسی تصاویر اور ویڈیوز جاری کیں جن میں دونیسک خطے کے اگلے مورچے دکھائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک تصویر ایک فوجی کمانڈر کی تھی جسے ایسوسی ایٹڈ پریس نے "کورٹ” کے نام سے متعارف کروایا۔ اس نے جو یونیفارم پہن رکھا تھا اس کے بازو پر داعش کا مونوگرام بنا ہوا تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھی کہ یوکرین کے فوجی اس قسم کے شدت پسندانہ مونوگرامز کے ساتھ دیکھے گئے تھے۔

ایسے افراد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے قریبی افراد میں سے ہیں۔ خود زیلنسکی بھی اب تک کئی ایسے فوجیوں کی تصاویر اپنے انسٹاگرام اکاونٹ پر شائع کر چکا ہے جنہوں نے اپنے بازو پر جرمن نازی کا مونوگرام لگا رکھا تھا۔ حال ہی میں برطانوی اخبار "سن” نے یوکرینی فوج کے 241 بریگیڈ کی ایک ویڈیو جاری کی ہے۔ ان تصاویر میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ فوجیوں نے اپنے سینے اور بازو پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا مونوگرام چشپاں کر رکھا ہے۔ اگرچہ گذشتہ 19 ماہ سے جاری یوکرین جنگ میں داعش کی موجودگی زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کے کچھ علاقوں میں داعش کی موجودگی تقریباً دس سال پہلے سے پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 7 جولائی 2015ء کے دن امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2014ء میں روس کے خلاف یوکرینی علیحدگی پسند عناصر کی اس جنگ میں داعش سے وابستہ چچن دہشت گرد بھی موجود تھے جس کا نتیجہ جزیرہ کریمہ کی علیحدگی کی صورت میں حاصل ہوا تھا۔ حتی یورپی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ نے بھی ان دنوں یورپی ذرائع ابلاغ اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے بقول اسی رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا: "یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چچنیا اور اینگوش خودمختار ریاستوں سے کچھ داعش سے وابستہ گروہ یوکرینی فوج کے ہمراہ جنگ میں شریک ہیں۔ وہ روس کو کمزور کر کے اسے اپنی مسلح افواج اپنے ملک تک محدود رکھنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایسے دیگر محاذوں سے روس کی فوجی موجودگی ختم کر سکیں جہاں مختلف قسم کے مذہبی دہشت گرد گروہ سرگرم عمل ہیں۔”

اگرچہ داعش کی نام نہاد خلافت کو ختم ہوئے چھ سال گزر چکے ہیں لیکن اس تکفیری دہشت گرد گروہ سے وابستہ عناصر اب تک مختلف خفیہ سیلز کی صورت میں عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کی سرگرمیاں حتی یوکرین تک جا پہنچی ہیں جہاں انہیں خود کو ظاہر کرنے کا اچھا موقع میسر آیا ہے۔ برطانوی اخبار سن میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے: "2021ء کے آخر میں امریکیوں نے روس اور دیگر خودمختار ریاستوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں داعش دہشت گردوں کو التنف فوجی اڈے منتقل کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد انہیں اسپشل آپریشنز کی ٹریننگ دینا تھا۔ امریکی جاسوسی ادارہ سی آئی اے حتی اب بھی مغربی ایشیا اور چند افریقی ممالک میں داعش کے خفیہ نیٹ ورکس تشکیل دینے میں مصروف ہے۔”

اس رپورٹ اور دیگر بہت سی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن نے جس طرح ماضی میں شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد عناصر کو اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کے حصول کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا تھا، اسی طرح وہ آج بھی یوکرین میں تکفیری دہشت گرد عناصر کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔ حتی غاصب صیہونی رژیم کے کچھ فوجی ذرائع سے 2021ء میں سامنے آنے والی رپورٹس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ التنف امریکی فوجی اڈے میں موجود 350 امریکی، برطانوی اور فرانسیسی فوجی اور سویلین ماہرین جنہیں "انٹیلی جنس ماہرین” کے طور پر جانا جاتا ہے داعش سے وابستہ عناصر کو ٹریننگ دینے میں مصروف ہیں۔ لہذا امریکہ کا یہ دعوی کہ یوکرین میں اس کا کوئی فوجی موجود نہیں ہے محض ایک فریب ہے۔

ماضی میں شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ جیسے داعش اور النصرہ فرنٹ یا دیگر دہشت گرد گروہ جیسے القاعدہ، الشباب اور بوکوحرام کی سرگرمیوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ گروہ مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی جانب سے خاص اہداف کے حصول کیلئے تشکیل پائے تھے۔ اس قسم کے گروہ کبھی بھی اخلاقی اور انسانی قوانین کے پابند نہیں رہے اور ہر قسم کے انسان سوز جرائم انجام دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "کیا دہشت گردی بھی آزادی اور جمہوریت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے؟”۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا رخ مغربی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی جانب ہے۔ یوکرین میں داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی کا انکشاف امریکہ اور مغرب کے اس دعوے کی قلعی کھول دیتا ہے جس میں وہ یوکرین کی حمایت کا مقصد آزادی اور جمہوریت کا فروغ قرار دیتے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے