حماس نہ بچاتی تو اپنی ہی فوج کی گولہ باری میں مارے جاتے، اسرائیلی خواتین
تل ابیب: رہائی پانے والے اسرائیلی یرغمالی ماں بیٹی نے کہا ہے کہ ہم اپنی فوج کی شدید گولہ باری کا نشانہ بن کر مارے جاتے اگر حماس کے نوجوانوں نے ڈھال بن کر ہماری حفاظت نہ کی ہوتی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق 48 سالہ چن گولڈسٹین الموگ اور ان کی 17 سالہ بیٹی اگم گولڈسٹین الموگ نے حماس کی قید سے رہائی کے بعد انٹرویو میں حماس کے جنگجوؤں کے رویے کی تعریف کی ہے۔
چن گولڈسٹین نے بتایا کہ انھیں ایک سپر مارکیٹ کے عقب میں رکھا گیا تھا اور وہیں اسرائیلی فوجی بمباری کر رہے تھے۔ ہم لوگوں کو گولہ بارود کی زور دار آوازیں اور بو صاف محسوس ہو رہی تھی۔
48 سالہ خاتون نے مزید بتایا کہ اگر اس موقع پر حماس کے نوجوان ہماری ڈھال نہیں بنتے تو ہم اپنی ہی فوج کی گولی باری میں مارے جاتے۔ ہمیں بچانے کی کوشش میں حماس کے نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کردیں۔
چن گولڈسٹین نے کہا کہ ایک موقع پر ہم نے حماس کے لوگوں سے کہا کہ کیا ہم مارے جائیں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ سے پہلے ہم مرجائیں گے لیکن آپ کو کچھ ہونے نہیں دیں گے۔ آپ ہمارے لیے قیمتی ہیں۔
اسی طرح 17 سالہ اگم گولڈسٹین نے بتایا کہ حماس کا سلوک انتہائی اچھا تھا۔ وہ ہماری ہر چیز کا خیال رکھتے اور مصروف رکھنے کے لیے ہمارے ساتھ مختلف کھیل بھی کھیلتے۔
اگم گولڈسٹین نے یہ بھی بتایا کہ ایک بار پنجہ آزمائی کا کھیل بھی کھیلا۔ اس کھیل کے دوران حماس کے جنگجوؤں نے اپنے ہاتھ پر تولیہ رکھا ہوا تھا۔
یاد رہے کہ ان ماں بیٹی کو حماس نے فلسطینی قیدیوں کے بدلے گزشتہ ماہ ہی رہا کیا تھا۔ 71 فلسطینی خواتین اور 169 بچوں سمیت 240 فلسطینیوں کے بدلے 81 اسرائیلیوں اور 24 غیر ملکیوں کو رہا کیا گیا تھا۔