کیا ماضی میں بھی کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم ٹھہرایا گیا یا اسے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا؟
دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا اور اس فیصلے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بَلے سے محروم ہو گئی۔اس فیصلے کے ردِعمل میں تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹرگوہر علی نے اس کو پی ٹی آئی کے خلاف سازش قراردیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔جیسے ہی یہ فیصلہ آیا سماجی و سیاسی حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملی کہ اب پی ٹی آئی کا بطور پارٹی مستقبل کیا ہو گا؟اس بحث کا اِس وقت میں ایک منطقی جواز بھی ہے کیونکہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ جاری ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔اب اگر پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے اس ضمن میں کوئی ریلیف نہیں ملتا تو یہ الیکشن میں انتخابی نشان سے محروم ہو جائے گی اور اس کے اُمیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد چند حلقوں سے یہ بحث بھی سننے کو ملی کہ اگر پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی سے بھی ماضی میں تلوار کا نشان چھینا جا چکا ہے تاہم یہاں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخی طور پر اگر ایسا کچھ ہوا تو کیوں ہوا اور الیکشن کمیشن کے تازہ فیصلے سے اُن تاریخی واقعات اور فیصلوں کی مماثلت کیا بنتی ہے؟مزید براں کیا ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے اندرونی انتخابات کو کالعدم قراردیا گیا؟لیکن اس ساری صورتحال میں اہم ترین بات یہی ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں رہی اور اگر کوئی ریلیف نہیں ملتا تو پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشن ہیں اور نقصانات کی نوعیت کیا ہو گی؟