ریاست، سیاست اور بلوچستان
کالم نگار:- سید مجاہد علی
انتخابی ہما ہمی میں اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس کے بہیمانہ تشدد، انسانی حقوق تنظیموں کے احتجاج اور وزیر اعظم کے ’حکم‘ پر خواتین و بچوں کی رہائی کا معاملہ اب پرانی خبر اور گزرے کل کی بات ہے۔ لیکن کیا کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کی بات پر کان نہ دھر کر اور ’ہماری بات تو سن لو‘ کا جواب آنسو گیس، لاٹھی چارج اور واٹر کینن سے دے کر کیا پیغام دیا گیا ہے؟ اور اس کے ملکی سالمیت اور مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بدھ کی رات جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اور بلوچ احتجاج کو مسترد کرنے کا جو سرکاری رویہ دیکھنے میں آیا، وہ یوں تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان کے علاوہ ملک بھر میں بنیادی حقوق کی بات کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی رہی ہے۔ البتہ بلوچستان کا معاملہ یوں خاص ہے کہ وہاں سے احتجاج کے لیے اسلام آباد آنے والے مظاہرین نہ مسلح تھے اور نہ ہی وہ وفاقی دارالحکومت کو فتح کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب کے علم میں ہے کہ جن عناصر نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی آڑ میں واقعی ریاست کو للکارا تھا، ان کے بارے میں ریاست پاکستان نے کیسے لاڈ و پیار کے ساتھ درگزر کا رویہ اختیار کیا تھا۔ حتی کہ فوجی جوانوں اور افسروں پر حملے کرنے اور انہیں شہید کرنے والوں کو لال مسجد سے ملحق جامعہ حفصہ کا پلاٹ خالی کرنے کے ’عوض‘ متبادل پلاٹ بھی دیا گیا اور شاید اس کی تعمیر کے لئے سہولت کاری بھی کی گئی۔
ریاست کو للکارنے والے یہ عناصر اب تک لال مسجد کو اپنا گڑھ سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً حکومت یا انتظامیہ کو ’متنبہ کرتے‘ ہوئے درحقیقت ریاست اور اس کی ذمہ دار فورسز کو پیغام دیتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی شرائط پر زندہ رہنا جانتے ہیں۔ بظاہر ہماری ریاست کو اس طرز عمل پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان ایک بار پھر سنگین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گرد، سکیورٹی فورسز پر حملے کر کے عوام میں خوف پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اور ریاست کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ریاست نے ’دہشت گردی سے نمٹنے‘ کے نام پر پندرہ بیس لاکھ ایسے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ریاست کی نگاہ میں ’غیر قانونی‘ ہیں لیکن عملی طور سے ان کی تیسری نسل پاکستان ہی میں پیدا ہو کر، یہیں پروان چڑھی ہے۔ اس کے باوجود، وہ زیر عتاب ہیں تاکہ ملک کو دہشت گردی سے بچایا جا سکے۔
دوسری طرف لال مسجد کے بزرجمہر چند سال گزرنے کے بعد مسجد کے ساتھ ملحق جامعہ حفصہ کے پلاٹ پر دوبارہ تعمیر کا کام شروع کرچکے ہیں تاکہ وہ اسلام آباد کے قلب میں اپنے پاؤں مزید مضبوطی سے جما سکیں۔ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے انہیں تعمیر روکنے کا نوٹس ضرور دیا ہے لیکن کیا ایسے عناصر محض ایک سرکاری نوٹس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے جو اسلحہ اٹھا کر ریاست کو للکارنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اور ان کا سرغنہ ملا عبدالعزیز اب بھی اسلام آباد میں شریعت کی اسی تفہیم کے مطابق نظام نافذ کرنے کا اعلان کرتا رہتا ہے جسے وہ خود درست سمجھتا ہے۔ اس کی باتوں پر غور کیا جائے تو موجودہ حکومت، جمہوریت، عدالتیں یا آئینی نظام ’غیر اسلامی‘ ہے اور اس نظام کی حفاظت کا عہد کرنے والا کوئی بھی ادارہ یا شخص ایک جائز ’ٹارگٹ‘ ہے۔ لیکن ملا عزیز ہی نہیں، اس کے زیر سایہ شدت پسندی کا وہ سارا ڈھانچہ بدستور موجود ہے جس کے عناصر درحقیقت تحریک طالبان پاکستان ہی کے طریقے کو جائز و درست قرار دے کر خود بھی اسی قسم کا مشن مکمل کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس، وفاقی حکومت یا ریاست کے ذمہ داروں کو البتہ ان سے کوئی تعرض نہیں ہے۔
ریاست کو اندیشہ ہے تو ان نہتے بلوچ مظاہرین سے ہے جو ہزاروں کلو میٹر کا پر صعوبت سفر کر کے اسلام آباد آئے تھے تاکہ وفاقی حکومت کو صرف یہ بتا سکیں کہ وہ تکلیف میں ہیں۔ ان غریب، مظلوم لوگوں کے پاس ریاست کو للکارنے کا کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ ان کے پاس تو سردی سے حفاظت کے لیے مناسب کپڑے بھی نہیں تھے۔ وہ نہ علیحدگی پسند تھے اور نہ ہی وہ کسی علاقے پر حکمرانی کا دعویٰ لے کر اسلام آباد آئے تھے۔ یہ تو ریاستی ظلم کا شکار وہ اہل خاندان تھے جن میں اب بچے، عورتیں یا بوڑھے مرد ہی بچے ہیں۔ گمشدہ جوانوں کا تو پوچھیں ہی مت۔ نہ تو ان کی خیر خبر ملتی ہے اور نہ پتہ مقام۔
خواتین کی سربراہی میں یہ بلوچ مظاہرین آخر کیا چاہتے تھے؟ کیا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے مطالبے نہ مانے گئے تو وہ لال مسجد والوں کی طرح مسلح ہو کر آ جائیں گے؟ نہیں، وہ تو صرف یہ درخواست کر رہے تھے کہ ہم پر روزانہ کی بنیاد پر ظلم بند کیا جائے۔ ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور باپوں کو اٹھانے اور غیر قانونی طور سے ہلاک کردینے کا طریقہ ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اسلام آباد میں حکومت کو یہ بتانے آئے تھے کہ دیکھو! ہم بھی انسان ہیں۔ اس ملک کے شہری ہیں۔ اسی دھرتی سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں بندوقیں نہ دکھائی جائیں، ہماری درخواست سنی جائے۔ ہمیں زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ بس بتا دیا جائے کہ ہمارے بیٹے، بھائی یا باپ کو کس الزام میں اٹھایا گیا ہے۔ یہ لوگ کسی کی معافی کا مطالبہ لے کر بھی نہیں آئے تھے۔ وہ تو صرف یہ تقاضا کر رہے تھے کہ ہمارے لوگوں کو سامنے لایا جائے، ان کے خلاف ملکی قانون کے مطابق مقدمے قائم کیے جائیں اور اگر وہ قصور وار ہیں تو انہیں سزا دی جائے۔ اور اگر انہیں کسی غلط فہمی کی بنیاد پر پکڑا گیا ہے تو انہیں اپنے گھر واپس جانے دیا جائے تاکہ کسی ماں کے چہرے پر سکون آ سکے کوئی بیٹی اپنے بچھڑے باپ کو دیکھ کر شاد ہو سکے۔
وہ کیا حکمت عملی ہے کہ وفاقی حکومت یا اس کے ادارے ’آستین کے سانپوں‘ کو تو محض نوٹس دے کر فرائض منصبی سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں، لیکن آئین و قانون کے مطابق اپنی بات کہنے کا حق مانگنے والوں کو طاقت کے ذریعے خاموش کروانا چاہتے ہیں؟ رات گئے تشدد کے بعد ان ’فسادیوں‘ کو بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت غیر انسانی اور ہتک آمیز انداز میں گرفتار کیا گیا۔ پھر وزیر اعظم ہاؤس کے بلوچ مکین کو اچانک خیال آیا کہ یہ تو اپنے ہی ’وطنی‘ ہیں، ان کے ساتھ تو رعایت ہونی چاہیے۔ اور وفاقی وزرا کے ذریعے بچوں اور عورتوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ لیکن گرفتار ہونے والے مردوں کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پولیس یا سرکار کے نمائندوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا؟ ان کے خلاف تشدد کا کیا جواز تھا اور پھر رہا کیے جانے والے بچوں و خواتین کو زبردستی بسوں میں بھر دارالحکومت سے نکالنے کا اقدام کرنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا ملک کا قانون شہریوں کو احتجاج کرنے کا حق نہیں دیتا یا وہ جس جگہ جانا چاہتے وہاں جانے سے روکتا ہے؟ یہ سوال اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پوچھے لیکن جواب نہ پاکر وہ خود ہی لاجواب ہو گئے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ ’ہنگامہ‘ فرو ہو گیا۔ بلوچ عورتیں اور بچے اپنے لاپتہ مردوں کی بازیابی کا مطالبہ لے کر آئے تھے لیکن انہیں بتا دیا گیا کہ اگر ایسی بات زبان پر لاؤ گے تو ریاستی جبر کا سامنا کرنا ہو گا۔ ملک میں انتخاب کا ہنگامہ ہے۔ یعنی آئین کے مطابق عوام کو اپنے نمائندے چننے کا موقع دیا جائے گا لیکن ریاست اسی ملک کے بعض حصوں کے لوگوں کو یہ پوچھنے کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ ہمیں کسی قانون یا عدالت کے بغیر کیوں مار دیتے ہو، یا ہمارے لوگوں کو اٹھا کر کہاں لے جاتے ہو۔ بتاؤ تو سہی کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو۔
ریاست کے اس رویہ پر تو شاید حیران ہونا بھی وقت ضائع کرنے جیسا ہو گا لیکن دیکھا جائے تو ملک بھر کی سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے بلوچ رہنماؤں کو رجھانے اور ساتھ ملانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ چند روز پہلے ہی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنا عہدہ چھوڑا تو ملک بھر کا میڈیا قیاس آرائیوں سے بھر گیا کہ یہ بلوچ رہنما اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالے گا۔ انہوں نے جب پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تو اندازے کیے جانے لگے کہ کیا ریاست کے ذمہ داروں نے اپنا ’لاڈلا‘ تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ہے؟ کیا اب نواز شریف کی بجائے وزارت عظمی والی پرچی پر بلاول کا نام لکھا جائے گا؟
نوٹ کیا جائے کہ ملکی سیاست کے سارے بزرجمہر، سرداروں کو رجھانے، الیکٹیبلز کو منانے اور با اثر لوگوں کو ساتھ ملانے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ لیکن انہیں مسکین و مظلوم بلوچ عوام کی صدا سنائی نہیں دیتی، بلوچ بیٹیوں اور بچوں پر پولیس کا تشدد دکھائی نہیں دیتا اور ان کے بارے میں نگران حکومت کی جعلی بیان بازی کا نوٹس لینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ سیاست کے سارے ستارے ریاست کے طاقت ور اداروں کی طرف معصوم نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور حساب لگاتے ہیں کہ کون سا بیان ان کے سیاسی امکانات کم کر سکتا ہے اور کون سی خاموشی ان کی اہمیت و ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کرے گی۔
پاکستان کو قانون سے ماورا ایسی مملکت میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ہی عوام کے مفادات کے خلاف سازشوں کا حصہ ہیں۔ کیا ساتھ مل کر چلنے، ملک میں خوشحالی لانے اور احترام کے رشتے استوار کرنے کے یہی چلن ہیں۔ ریاست اور سیاست کے گٹھ جوڑ سے جنم لینے والا ماحول ملک میں کوئی قانونی و آئینی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ یہ تو ایک طویل صبر آزما شب تاریک کا منظر نامہ پیش کرتا ہے