اقوام متحدہ کا ادارہ اور مسلمانوں کا استحصال

United_Nations_Security_Council.jpg

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو دنیا نے پیروں تلے روندا ہے۔ 1920 سے 1950 تک کے تیس سال عالمی سیاست میں تبدیلی کے سال تھے۔ عظیم مسلم ریاستیں ان کے دشمنوں کے ہاتھوں تقسیم، تباہ اور منتشر ہوئیں۔ نوآبادیاتی حکمران مسلم ممالک کو چھوڑ گئے لیکن جغرافیہ اور جغرافیائی سیاست میں تبدیلیوں نے مسلمانوں کو بے بس کردیا، کیونکہ ان ریاستوں کی حکومتیں عالمی سطح پر مغربی اشرافیہ کے حوالے کردی گئیں۔

عالم اسلام کو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے مغربی استعمار کا بظاہر خاتمہ ہوا لیکن حقیقت میں اس نے اپنی شکل بدل لی۔ مسلم دنیا کو ان کے گروہوں اور مغربی کٹھ پتلیوں کے حوالے کردیا گیا۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ عام اصول تھا اور خاص طور پر مسلم ریاستوں کےلیے وضع کیا گیا تھا۔ پالیسی یہ تھی کہ مسلم ریاستوں کو ہمیشہ کےلیے اور پوری دنیا میں کمزور کیا جائے۔ وہ اقلیتیں جنہیں مغرب نے بنیادی طور پر مذہبی افکار میں تبدیلی کے ذریعے پیدا کیا تھا، انہیں ان تمام ریاستوں کے امور کی سربراہی دی گئی۔ اقتدار اور حکومت صرف ان لوگوں کے لیے تھی جو مغرب کے کٹر پیروکار تھے اور انھوں نے اپنے مغربی آقاؤں کےلیے کام کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ لوگ جو اپنے آقا کے مفادات کےلیے جان دینے کو تیار تھے، بحیثیت مجموعی انہوں نے اپنی عزت اور غیرت کو یہودی دولت کی دہلیز پر داؤ پر لگادیا تھا۔

جب مغربی اقوام نے مسلم ممالک کی سرزمین چھوڑی تو وہ اپنے پیچھے اپنے مقامی نمائندے چھوڑ گئے جو طاقت اور حکومت کے بدلے صہیونیوں اور مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرتے رہے۔ اس سلسلے میں جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا گیا اور ان کے عقائد و نظریات کو اخبارات و جرائد کے ذریعے مسلمانوں تک نہ صرف پہنچایا گیا بلکہ اسے مقبول بھی بنایا گیا۔ عام مسلمان بے بس تھا۔ وہ مغرب اور یہودی نواز میڈیا کے سامنے بھی اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ جس نے بھی ایسے خطرناک کام کرنے کی کوشش کی اسے سزا دی جائے گی یا اسے ختم کردیا جائے گا۔

اشرافیہ جو کہ مغرب زدہ طبقہ تھا، قومی اور عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کےلیے کام کرتا رہا۔ ان مسلم ممالک میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا فیصلہ مغرب کی طرف سے آیا۔ نام نہاد آزادی کے نام پر مسلم ممالک کے حکمران مغرب کے چنگل میں پھنس کر مغرب کے غلام بن گئے۔ یہودیوں کے حامی مغربی ممالک نے مسلم ممالک کے ان تمام مقامات پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جہاں سے کسی بھی قسم کی تبدیلی واقع ہوسکتی تھی۔

اسی دور میں مغربی اقوام نے مسلمانوں کو دائمی غلامی میں رکھنے کا ایک اور منصوبہ بنایا۔ انہوں نے یو این او کو منظم کیا۔ یو این او کے ایس او پیز ہر جگہ مسلمانوں کو محکوم بنانا تھے۔ یو این او کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کا اختیار دیا گیا۔ کیا مسلمانوں کے کسی مسئلے کے حل کی کوئی مثال موجود ہے جسے اقوام متحدہ نے حل کیا ہو؟ بالکل نہیں۔ اس کے برعکس نام نہاد امن سازی کے نام پر مسلمانوں کا استحصال کرنے والی تنظیم کے جال میں مسلمانوں کو الجھا دیا گیا۔ مسلمانوں کےلیے ایسے مسائل پیدا کیے گئے جو زمین پر کبھی موجود ہی نہیں تھے۔

اسرائیل پہلا مسئلہ تھا جسے اس اقوام متحدہ نے بنایا اور پھر اسے اپنے پلیٹ فارم پر پیش کیا تاکہ کوئی دوسرا حل پیش نہ کرسکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ سے پہلے کوئی اسرائیل نہیں تھا۔ یو این او نے ہی اس دہشت گرد ریاست کی پرورش کی۔

اقوام متحدہ کی کامیابیوں میں یہ سب سے اہم ہے کہ جن مسلم ممالک میں مسلم نواز یا آزاد سوچ رکھنے والی حکومت تھی، ان پر حملہ کرکے تباہ کیا گیا۔ یہ عراق، لیبیا، مصر، یمن، سوڈان، صومالیہ، افغانستان، بوسنیا، چیچنیا وغیرہ ہیں، اس نے ثابت کردیا ہے کہ یو این او دنیا کے مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مغرب کا آلہ کار ہے۔ مغرب نے مزید بلیک میل کرنے کےلیے طرح طرح کے نعرے لگائے اور کمزور مسلمانوں کو مزید کمزور کرکے اپنی اجارہ داری اور بالادستی کو برقرار رکھا۔ جہاں ضرورت پڑی وہاں جمہوریت کا نعرہ لگایا گیا، دہشت گردی، انتہاپسندی، اور حقوق نسواں اور بعض مقامات پر انتہا پسندی بھی۔

اگر ان تمام معروضی حالات کو مدنظر رکھا جائے اور ان کا تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کو مغرب سے فکر و عمل کی آزادی حاصل ہو اور متحدہ کے ماڈل پر اپنی تنظیم ہو۔ وہ قومیں جن میں نیٹو کی طرح ملٹری ونگ، سلامتی کونسل، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مسلم ادارے ہونے چاہئیں، جو مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فیصلے خود لیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے