قصور ویڈیوز سکینڈل کے ملزمان بری: کیا ایسا ہو سکتا ہے اصل ملزم کبھی گرفتار ہی نہ ہوا ہو؟

qasoor-iscandal.jpg

آج سے قریب آٹھ برس پہلے کی بات ہے جب پاکستان کے شہر قصور میں کمسن بچوں کی پورنوگرافک فلمیں بنانے والے منظم گروہ کی موجودگی کی خبریں سامنے آئیں اور دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
مختلف مقامی ذرائع ابلاغ نے ابتدائی طور پر یہ نشاندہی کی کہ 20 سے 25 افراد پر مشتمل مردوں کا ایک گروہ کئی برس سے کام کر رہا تھا جو کمسن بچوں کی پورنوگرافک فلمیں بنا رہا تھا۔
کچھ اندازوں کے مطابق 400 سے زیادہ ویڈیو کلپس موجود تھے جن میں 300 کے قریب قصور کے گاؤں حسین خانوالہ کے بچوں کے حوالے سے تھے۔ مقامی آبادی کے غم و غصے اور پولیس سے پُرتشدد جھڑپوں کے بعد انتظامیہ اور پولیس نے ان الزامات پر تحقیقات کا آغاز کیا۔
مقامی پولیس نے درجن بھر سے زیادہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور کئی مقدمات درج کر کے تحقیقات کا آغاز کیا تھا تاہم بعد ازاں ان مقدمات کی تفتیش اور تحقیقات ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سپرد کر دی گئی۔
جے آئی ٹی نے سنہ 2016 میں اپنی تحقیقات مکمل کیں اور لگ بھگ 17 افراد کے خلاف بچوں کے ریپ اور معاونت کا چالان انسدادِ دہشت گردی عدالت میں جمع کروایا۔
اس جے آئی ٹی نے 30 سے زیادہ مقدمات کی تفتیش کی اور 19 ایسے بچوں کی نشاندہی کی جنھیں ریپ کیا گیا۔ انھوں نے جن شواہد کا جائزہ لیا ان میں 50 کے قریب ویڈیو کلپس اور 70 سے زیادہ تصاویر شامل تھیں جو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کا حصہ تھیں۔
دو سال تک چلنے والے مقدمات کے بعد انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مرکزی ملزم حسیم عامر سمیت تین افراد کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ دو سال بعد دوبارہ مقدمہ ہائی کورٹ سے واپس ٹرائل کورٹ میں آنے پر اے ٹی سی نے ان ملزمان کی سزا برقرار رکھی تھی۔
تاہم حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے قصور ویڈیوز سکینڈل کے تینوں مرکزی ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیا اور انھیں بری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
سنہ 2015 میں بچوں کے ریپ کی ویڈیوز موجود تھیں۔ قصور میں ان دنوں کوریج کرنے والے صحافیوں کو یہ ویڈیوز وہاں موجود کئی مقامی افراد از خود فراہم کر رہے تھے۔ ان ویڈیوز میں کمسن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنتے دیکھا جا سکتا تھا۔
پولیس اور جے آئی ٹی نے ان ویڈیوز اور تصاویر کی بنیاد پر قصور کے کم از کم 19 بچوں کو پاکستانی قوانین کے مطابق سوڈومی یعنی ’غیر فطری عمل‘ کا نشانہ بننے کے مقدمات بنائے۔ انھوں نے کم از کم 10 افراد کو ان مقدمات میں ملزمان ٹھہرایا۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا ملزمان کے بری ہو جانے کی وجہ کمزور پراسیکیوشن تھی؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو پھر ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ کیا سنہ 2015 میں ان بچوں کے ریپ کے واقعات کے حقیقی ملزم گرفتار ہی نہیں ہو پائے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے